Review on Dr Gazi's book (2)


Dr Shakeel Shifayi
Sunday 5th of January 2025 05:40:14 AM
               

" امت مسلمہ - مسائل اور چند اجتماعی فرائض" 
از ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ 
ناشر: الحرمین پبلیکشنز ، گاؤ کدل مائسمہ بازار ، سرینگر 
صفحات: 320

جس طرح موجودہ علمی، سائنسی اورٹیکنالوجی کے دورمیں قدیم علمی تراث کو محفوظ رکھنے اور نئے سرے سے ایڈٹ کر کے شائع کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے اور اس سمت عرب دنیا میں بر صغیر کے مقابلے میں کچھ مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے ، اسی طرح اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے وہ مفکرین جو قدیم علمی تراث اورجدید علم کلام کے ساتھ ساتھ جدید موثر اسلوب کے بھی حامل تھے ، جنہوں نے اسلامی روح کو برقرار رکھتے ہوئے جدید علمی رحجانات سے فائدہ اٹھا کر جدید اسلوب میں معاصر سیاسی ، معاشی ، اخلاقی، تعلیمی ، نفسیاتی ، معاشرتی اور سماجی مسائل پر قلم اٹھایا اور نہایت بلند پایہ تحریریں پیش کیں جو موجودہ نسلوں کی صحیح رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، حالات کا تقاضا ہو رہا ہے کہ ان مفکرین ، اہل علم و دانش مصنفین اور داعیانِ اسلام نیز مربیانِ ملت کی تحریروں کو وسیع پیمانے پر شائع کرنے اور نوجوان نسل تک پہنچانے کے لیے موثر اقدامات کئے جائیں ۔
اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ڈاکٹرمحمود احمدغازی ؒ کا شمار ایسے ہی مجمع البحرین علماء و مفکرین میں کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کی کئی تحریروں اور خطبات کو صفحہِ قرطاس پر اتار کرکتابی شکل میں نئی نسل تک پہنچانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ بڑی ناسپاسی ہوگی اگر اس ضمن میں ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن کا شکریہ اس اعتراف کے ساتھ ادا نہ کیا جائے کہ انہوں نے ڈاکٹر غازی مرحوم کے علوم کی اشاعت میں جو دلچسپی اور جانفشانی دکھائی وہ کسی کرامت سے کم نہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں نہ صرف ڈاکٹر غازیؒ کے علوم سے دلچسپی رہی ہے بلکہ اس بات کی بھی غماز ہے کہ وہ نئی نسل تک معتدل اور مستحکم علمی روایات کو پہنچانے میں کتنے حساس ہیں ۔
زیرِ نظر کتاب سلسلہِ محاضرات کی ایک اور سنہری کڑی ہے جسے ”امت مسلمہ :مسائل اور چند اجتماعی فرائض “ کے نام سے شائع کیا گیاہے۔
یہ کتاب چار بنیادی ابواب پر مشتمل ہے پہلا باب ”اسلامی ریاست دور جدید میں“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مسلم امت اور جدید تصورِ قومیت ، عالمگیر اسلامی معاشرہ ، اسلامی دنیا اور نیا عالمی نظام، اسلامی ریاست دور جدید میں اور خلافت کا امکان اور اس کی ممکنہ جدید شکل جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے۔
چونکہ موجودہ دورمیں ریاست کے قیام نے بڑی اہمیت حاصل کی ہے اور نظریاتی بنیادوں پر ہی ریاستوں کے قیام کی بحثیں عالمی سطح پر منعقد کی جانے لگی ہیں ، اس مرحلے پر جدید مسلم نوجوان کے ذہن میں بھی یہ سوال ابھرتاہے کہ کیا موجودہ زمانےمیں اسلامی ریاست کی تشکیل ممکن ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟ یا اس کے قیام کے لیے کون سا لائحہ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے ؟ عالمی سطح پر مغرب کی سیاسی، معاشی، فوجی اور تجارتی اجارہ داری کا مقابلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے ؟ موجودہ عالمی نظام مستقبل میں کون سی کروٹ اختیار کرنے کی کگار پر ہے ؟ اور اس میں اُمت مسلمہ کی حیثیت کیا رہے گی ؟خلافت کا دینی تصور کیا ہے ! مغرب اسے کس نظر سے دیکھتا ہے ؟  یہ اور اس طرح کی بڑی عمدہ اور اہم بحثیں اس باب میں شامل ہیں ، جو یقیناً موجودہ دور کے اسلامی مفکرین و دعاۃ کو دعوتِ فکر دیتی ہیں ۔
 دوسرا باب ” عالم اسلام کی تحریکیں“ کے عنوان سے ہے ۔چونکہ مغرب کے استعماری تسلط کے بعد مسلم ممالک میں مغرب سےآزادی کی تحریکیں منظر عام پر آئیں ۔ ان میں سے بعض تحریکوں کے پیش نظرصرف مغربی تسلط سے آزادی کا حصول تھا اور بعض تحریکوں کے پیش نظر اسلامی نظام فکر و عمل کا نفاذ بھی تھا ۔ ان تحریکوں میں ، دور مقاومت میں ،  ایسے عناصر بھی شامل تھے جنہیں اسلام کے آفاقی ، دعوتی ، سیاسی پہلو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یا یہ کہ انہوں نے چوں کہ مغربی دانشگاہوں میں تعلیم پائی تھی لہٰذا وہ مغربی تسلط سے آزادی کے باوصف مغرب ہی کی تقلید و پیروی کو مسلمانوں کے حق میں سود مند سمجھ رہے تھے ۔ اس لیے مغرب نے انہیں اپنے جانشین کے طور پر اپنے پیچھے چھوڑنا پسند کیا ۔ آزادی کے بعد بھی اسلامی ریاست کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کے خواب کی تعبیریں سامنے نہیں آئیں ۔خود ان اسلامی تحریکوں میں بھی ، اخلاص اورجانفشانی کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ، داخلی جزوی انحرافات بھی تھے جن کی وجہ سے یہ تحریکیں روایت کو مقدم سمجھنے والی دینی قیادت کی تنقید کا بھی شکار ہوئیں ۔
ڈاکٹر غازی مرحوم نے ان تحریکات کا تاریخی اور علمی جائزہ پیش کیا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود کافی و شافی ہے۔انہوں نے بڑی باریک بینی سے ان اسباب کی نشاندہی کی ہے جو مغربی تسلط کے لیے ذمہ دار رہے ہیں ۔ مغربی حملوں کے جو دیر پا اثرات مسلم سماج پر مرتب ہوئے جنہوں نے اسلامی تحریکوں کو بھی کسی درجے میں متاثر کیا، ان کا جائزہ پیش کیا ہے۔ بہرحال اس اہم موضوع کی ابتدائی بحثیں اس باب میں شامل کی گئی ہیں۔
  تیسرا باب ”چند اجتماعی فرائض“ کے عنوان سے ہے ۔ اس میں موجودہ زمانے میں ملتِ اسلامیہ کے مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے حل کے لیے جو صورتیں ممکنہ حد تک موثر ہو سکتی ہیں ان پر بھی خامہ فرسائی کی گئی ہیں ۔ امت مسلمہ کے اجتماعی فرائض پر بھی بڑی عالمانہ بحث کی ہے ۔اُمت کا اجتماعی فریضہ یعنی دعوتِ اسلامی کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے ۔ نیز اسلامی تعلیم و تربیت پر بھی بڑی عمدہ اور کارآمد گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر غازی کایہ موقف قابل توجہ ہے کہ ہماری تعلیمی کوششیں اس وقت تک بارآور نہیں ہوسکتیں تاوقتیکہ ہم مغرب کے فکری تسلط سے خلاصی حاصل نہ کریں۔ یہ باب موجودہ زمانے میں اُن تمام لوگوں کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے جودعوتِ اسلامی کا کام ان تمام تقاضوں کے ساتھ انجام دینا چاہتے ہیں جنہیں معاصر الحادی رجحانات نے ابھارا ہے۔
 آخری باب” اسباب زوال امت“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں اولاً اسباب زوالِ امت پر بحث کی گئی ہے اور پھر امت میں فرقہ بندی اور اس کے مضر اثرات کو زیرِ گفتگو لایا گیا ہے۔  اسبابِ زوال اُمت پر بہت سے مفکرین نے لکھا ہے ۔ ان میں بعض پہلوؤں میں اختلاف بھی پایا گیا ہے اور یہ ایک طبعی امر ہے۔
ڈاکٹر غازی نے عروج و زوال کے چھے(6) اسباب پر بحث کی ہے۔ جو ان کےالفاظ میں یہ ہیں:
1۔ وہ اسبابِ عروج جو صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں۔
2۔وہ اسبابِ عروج جو صرف غیر مسلموں کے ساتھ خاص ہیں۔
3۔وہ اسبابِ عروج جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان مشترک ہیں۔
4۔ وہ اسبابِ زوال جو صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں ۔
5۔وہ اسبابِ زوال جو صرف غیر مسلموں کے ساتھ خاص ہیں ۔
6۔ وہ اسبابِ زوال جو مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان مشترک ہیں ۔
فرقہ بندی مسلمانوں کا وہ المیہ ہے جس نے سخت ترین حالات میں بھی مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی بنیادوں پر کھڑا ہونے کا موقع نہیں دیا۔ ڈاکٹر غازی نے مسلمانوں میں  بہتّر فرقہ ہونے کی خبر دینےوالی حدیث پر بھی گفتگو کی ہے۔ڈاکٹرغازی کے مطابق اس امت کا غلبہ اس امت میں یکجہتی اور وحدت میں مضمر ہے ۔ فرقہ پرستی کی جو بھیانک شکلیں امت میں پائی جاتی ہیں، ان کی کئی مثالیں ڈاکٹر غازی نے اس مضمون میں پیش کی ہیں۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔اس کتاب کا مطالعہ علماء ِ دین، طلبہِ دین ، دعاۃ اور دینی موضوعات پر لکھنے والے مصنفین کے لیے ازحد ضروری ہے ۔مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر غازی کی دوسری کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی علمی حلقوں میں ذوق و شوق سے پڑھی جائے گی - 

( شکیل شفائی)


Views: 115

Last Comments

Naseer Ahmad
الحمدللہ ڈاکٹر شفائ صاحب کا تبصرہ دیکھ کر اور پڑھ کر بہت مسرت ہوئی ڈاکٹر صاحب نے بہت ہی علمی اور دقیق انداز میں گفتگو فرما کر امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائ اس پر ڈاکٹر صاحب کی سعی و کوشش کی ہمیں داد دینی چاہئے ڈاکٹر صاحب کو واقعی امت کی درد ہے بہر کیف ڈاکٹر غازی مرحوم محتاج تعارف نہیں ہے انہوں نے بہت سی علمی سوغات امت مسلمہ کے لئے چھوڑی ہے جنہیں اہل علم نے قبول بھی فرمائے ہیں اور اپنی علموں حلقوں میں اس کا اظہار کرتے رہے ہیں الحمدللہ میں نے بھی غازی صاحب کی کچھ کتابیں پڑھی ہیں اور اپنی لائبریری میں موجود ہے الحمدللہ انہیں پڑھ کر انسان چاہتا ہے کہ بار بار پڑھا جائے ان کی جو محاضرات ہیں وہ بہت دلچسپ اور قابل مطالعہ ہے میرے پاس ان کی درج ذیل کتابیں موجود ہیں محاضرات حدیث محاضرات فقہ محاضرات سیرت فالحمد للہ