Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

Review on Dr Gazi's book


  • Dr Shakeel Shifayi
  • Sunday 5th of January 2025 05:38:47 AM

" ریاست اور امورِ ریاست" 
از ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ 
ناشر: الحرمین پبلیکشنز ، گاؤ کدل ، مائسمہ بازار ، سرینگر 
صفحات: 232

بیسویں صدی کے ربع آخر اور اکیسویں صدی کے ربع اول میں جن اسلامی مفکرین نے جدید ذہن اور قدیم طرزِ فکر و عمل کے حاملین کو یکساں طور پر متاثر کیا ان میں ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کا نام انتہائی اہمیت کا حامل ہے - ڈاکٹر صاحب مرحوم عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ جدید فکری ، سماجی ، سیاسی اور معاشی علوم نیز جدید طرزِ استدلال سے خوب واقف تھے - انہوں نے جہاں قرآن و حدیث ، فقہ و شریعت ، سیرت و سوانح جیسے اہم موضوعات پر دادِ تحقیق دی وہیں پر امام مجدد الف ثانی ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، علامہ اقبال رحمہم اللّٰہ جیسے اساطینِ امت کے افکار و نظریات کی بھی عالمانہ و فاضلانہ توضیح و تشریح کی - مزید برآں موجودہ زمانے میں ابھرنے والے علمِ کلام ، تصوّرِ رسالت ، بین الاقوامی قانون ، احیائے اسلام کے لیے اٹھنے والی تحریکات پر بھی عمدہ استدلالی انداز کی تحریریں اور خطبات پیش کیے - غازی صاحب مرحوم کے اس عظیم ذخیرے کو بتدریج منظر عام پر لانے کی کوششیں جاری ہیں - 
زیرِ نظر کتاب " ریاست اور امورِ ریاست" اسی طلّائی سلسلے کی ایک کڑی ہے - کتاب کے مُرَتّب ڈاکٹر سید عزیز الرحمن نے لکھا ہے کہ یہ مجموعہ کسی مُرَتَّب کتاب کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ مختلف چھوٹی بڑی تحریروں ، محاضرات اور خطبات پر مشتمل ہے - 
کتاب کل گیارہ ابواب پر مشتمل ہے - پہلے باب کا عنوان " مسلم امت اور جدید تصورِ قومیت" ہے - اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک عالَمی امت بنانے کا مکلّف بنایا ہے - یہ مقصود بالذات ہے - جہاں تک ریاست کے قیام کا تعلق ہے تو وہ فی نفسہٖ مطلوب نہیں بلکہ دراصل اس امت کی حفاظت کا ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے جس کی عالمی تشکیل بحیثیتِ مجموعی مسلمانوں پر فرض ہے - ڈاکٹر صاحب نے لفظ امت اور اس کے مشتقات پر بڑی عمدہ بحث کی ہے - 
دوسرا باب " اسلامی ریاست عصر حاضر میں" کے عنوان سے ہے - اس باب میں ڈاکٹر صاحب مرحوم نے جو موقف بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی ریاست کا قیام ہر چند مجموعی طور پر تمام مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلامی ریاست کا قیام دین کا اصل الاصول ہے - دراصل یہ ایک واجب کی تکمیل کا ذریعہ ہے جیسا کہ قاعدہ فقہیہ میں مذکور ہے " ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب" - لہذا ریاست کا قیام واجب بالغیر ہے - مصنف نے اس ضمن میں اساطینِ امت کے اقوال سے استشہاد کیا ہے - خلافت کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے - خلافت کے منصب پر انسان کے تقرر کے چار منطقی نتائج انہوں نے بیان کیے ہیں ، پھر انہوں نے اسلامی ریاست اور خلافت کے مابین تلازم پر روشنی ڈالی ہے - مصنف کے نزدیک خلافت ہی کا دوسرا نام اسلامی ریاست ہے - خلافت کی تعریف میں امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی یہ تحریر نقل کی ہے: 
" هي الرياسة العامة في التصدي لإقامة الدين بإحياء العلوم الدينية و إقامة أركان الإسلام و القيام بالجهاد وما يتعلق به من ترتيب الجيوش و الفرض للمقاتلة و اعطائهم من الفيئ و القيام و إقامة الحدود و رفع الظلم و الأمر بالمعروف و النهي عن المنكر نيابة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم " 
( یہ عمومی ریاست ہوتی ہے جو اس امر پر توجہ کرتی ہے کہ دینی علوم کے احیاء کے ذریعے دین کی اقامت ہو اور ارکانِ اسلام قائم ہوں ، جہاد اور اس سے متعلق امور جیسے لشکر کی ترتیب ، قتال ، مجاہدین میں مالِ فیئ کی تقسیم ، عدالت کا قیام ، حدود کا نفاذ ، الغائے ظلم ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے امور اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں - یہ کام ریاست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں انجام دے گی)
مصنف نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے ؟ 
تیسرے باب " اسلامی ریاست دورِ جدید میں" میں مصنف نے اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی ہے کہ موجودہ دور میں اسلامی ریاست کا قیام کس طرح ممکن ہے ؟ اس وقت مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں ان کے پیشِ نظر یہ بات مستبعد معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آ سکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنے نظام ہیں انہوں نے انسانیت کو جنگ ، خوف ، بدامنی ، بھوک ، ظلم ، بے انصافی ، فاحشات و منکرات کے سوا کچھ بھی نہیں دیا - 
اس باب میں اوّلاً ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اسلامی ریاست کی جوہری اساسیات پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور اسلامی ریاست کے امتیازات کو پوری طرح مبرہن کیا ہے - ان کے خیال میں جدید دنیائے اسلام بھی یورپین کمیونٹی کی طرز پر اسلامک کمیونٹی کی داغ بیل ڈالے تو دورِ جدید میں دارالاسلام کے ایک نئے انداز سے احیاء کے مترادف ہوگا -( ص 80)
ڈاکٹر صاحب نے اسلامی ریاست اور مسلم ریاست کے مابین فرق و امتیاز کو بھی واضح کیا ہے نیز اس سلسلے میں جو کنفیوژن عام اذہان میں پایا جاتا ہے اس کی وضاحت کی ہے - 
چوتھے باب میں خلافت کے امکان اور اس کی ممکنہ جدید شکلوں پر گفتگو کی ہے - اس میں ان امور سے تعرض کیا ہے جو خلافت کے امکان کو موجودہ دور میں حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں - مصنف نے نیشن اسٹیٹ کے یورپی تصور کو اسلامی ریاست کے تصور سے متصادم قرار دیا ہے - مصنف نے لکھا ہے کہ موجودہ زمانے میں خلافت کے امکانات کی بات کئی مفکرین نے کی ہے - علامہ اقبال نے " کارپوریٹ خلافت" کا تصور دیا تھا - ایک اور عربی دانشور و محقق ڈاکٹر احسان سامی حقی نے " مسلم الغد" کے نام سے ایک کتاب لکھی اور اس میں یہ تجویز دی کہ موجودہ دور میں مکمل خلافت کا نفاذ مشکل ہے لہذا اس کے جزوی احیاء پر اکتفاء کیا جانا چاہیے - ان کے نزدیک خلیفہ کا انتخاب کرکے ان کو ثقافتی ، تعلیمی اور روحانی ذمہ داریاں سپرد کی جانی چاہیے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے ثقافتی ، تعلیمی اور روحانی یا خالص مذہبی معاملات کی نگرانی اور تنظیم اس خلیفہ کو سونپی جانی چاہیے - اس طرح کی باتیں اور لوگوں نے بھی کی ہیں - خود ڈاکٹر صاحب نے بھی ایک تجویز پیش کی ہے - وہ لکھتے ہیں: 
" سوال یہ ہے کہ کیا خلافت کا قیام موجودہ بین الاقوامی منظر نامے میں ممکن العمل ہے ؟ کیا موجودہ مسلم ریاستوں کی داخلی اور خارجی پالیسیاں اور ان کے بین الاقوامی روابط اور مفادات اس کی اجازت دیں گے ؟ اگر یہ سوال مستقبل قریب کے بارے میں ہو تو میرا جواب نفی میں ہوگا - البتہ اگر صحیح خطوط پر کام ہوتا رہا تو مستقبل بعید میں یقیناً احیائے خلافت کا امکان موجود ہے " 
پھر ڈاکٹر صاحب نے اس سلسلے میں پانچ نکات بیان کیے ہیں جنہیں اصل کتاب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے - 
پانچواں باب " ریاستِ مدینہ ، دستور اور نظامِ حکومت" کے عنوان سے ہے - اس باب کا خلاصہ یہ ہے کہ چوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے انسانوں کے لیے اسوہ حسنہ ہیں ، معاشرے کے جمیع طبقات کو آپ (ص) ہی سے ہدایت لینے کا مکلف بنایا گیا ہے لہذا آپ جس طرح دوسرے انسانوں کے لیے اسوہ اور قدوہ ہیں فرماں رواؤں ، حکمرانوں ، فاتحین ، جرنیلوں اور سربراہانِ مملکت کے لیے بھی اسوہ اور قدوہ ہیں ، اسی لیے اللہ تعالٰی نے آپ (ص) میں نبوت اور حکومت کو جمع کردیا - 
ڈاکٹر صاحب مرحوم لکھتے ہیں کہ ریاست اور حکومت اسلام کا مقصد نہیں بلکہ اسلام کی ضرورت ہے - اسلام کی منزل نہیں نشانِ منزل ہے - اس ضرورت کے تحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ریاست قائم فرمائی - چوں کہ آپ ( ص) نے بذاتِ خود ریاست قائم فرمائی لہٰذا اب قیامت تک دنیا کے جس خطے میں بھی اسلامی ریاست کا قیام مطلوب ہو یا اس کا امکان ہو تو وہاں آپ(ص) کے رہنما خطوط ہی سے روشنی حاصل کی جائے گی - 
چھٹا باب دراصل پانچویں باب ہی کی توسیع ہے - اس میں ریاستِ مدینہ کے معاشرتی اور معاشی کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے - ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ اس باب میں ریاستِ مدینہ کے دو اہم پہلوؤں پر گفتگو ہوگی: 
1۔ مدینہ منورہ میں معاشرت اور اس سے متعلق چند مسائل 
2۔ مدینہ منورہ میں بعض انتظامی شعبہ جات خاص طور سے وہ شعبہ جات جن کا تعلق معیشت سے تھا - 
اس باب میں اسلام سے پہلے معاشرتی اور معاشی صورتحال پر بھی بحث کی گئی ہے اور اسلام آنے کے بعد عرب کی معاشرتی و معاشی حالت جس طرح کے انقلاب سے دوچار ہوئی اور اس پر جس قسم کے اثرات مرتب ہوئے ، اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے - 
ساتواں باب صدرِ اسلام میں شعبہ احتساب پر بحث کرتا ہے - احتساب کا مطلب ہے اسلامی معاشرے کی نگرانی کرنا تاکہ معروف منکر میں اور منکر معروف میں نہ بدل جائے ، معاشرتی ظلم کی کوئی شکل نہ ابھرے ، لوگوں کی حق تلفی نہ ہو - مثلاً حدیث میں آتا ہے " من غَشَّ فلیس منا" - اب سوال یہ ہے کہ غشّ میں کیا کیا صورتیں شامل ہو سکتی ہیں - حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے درج ذیل چھ صورتیں اس میں شامل کی ہیں:
1۔ سودا فروخت کرتے وقت اس کا عیب چھپانا 
2۔ جو سودا دکھایا وہ نہ دینا ، اس کی جگہ کوئی اور سودا دینا 
3۔ ہوٹلوں کے کھانوں میں عام معیار سے کم درجے کا سامان استعمال کرنا 
4۔ کھوٹے سکے بنانا اور چلانا 
5۔ عطریات میں ملاوٹ کرنا 
6۔ کیمیاوی طریقوں سے مصنوعی سونا یا چاندی بنانا 
ظاہر ہے اس فہرست میں موجودہ زمانے کے اعتبار سے اور بھی شکلیں داخل ہو سکتی ہیں - 
چونکہ اسلامی حکومتوں میں شعبہِ احتساب ایک مستقل اور مہتم بالشان شعبہ رہا ہے ، ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور تاریخی تناظر میں اس پر گفتگو کی ہے - انہوں نے احتساب اور عدلیہ کے مابین فرق و امتیاز اور مماثلت و موافقت کو بھی بیان کیا ہے ، اس ضمن میں محتسب کی صفات اور ذمہ داریوں پر بھی قلم اٹھایا ہے - 
آٹھواں باب بھی اسی موضوع کا احاطہ کرتا ہے کہ اسلامی ریاست میں احتساب کے ادارے کی کتنی ضرورت ہے - اس باب میں احتساب ( جسے حِسبہ بھی کہتے ہیں) کے لغوی اور اصطلاحی معنی پر  بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے - امام غزالی رحمہ اللہ نے احتساب کی درج ذیل تعریف لکھی ہے: 
" عبارة عن المنع عن منكر لحق الله صيانة للممنوع عن مقارنة المنكر " 
( احتساب کا مطلب ہے حقوق اللہ سے متعلق کسی منکر سے روکنا تاکہ جس شخص کو روکا جائے وہ منکر کا ارتکاب کرنے سے باز رہے) 
قاضی ابو یعلیٰ نے احتساب کہ یہ تعریف لکھی ہے: 
" هو أمر بالمعروف إذا ظهر تركه و نهي عن المنكر إذا ظهر فعله" 
( یہ امر بالمعروف ہے جب معروف کو چھوڑ دیا جائے اور یہ نہی عن المنکر ہے جب منکر کا کھلے عام ارتکاب کیا جائے) 
نویں باب میں موجودہ دور میں احتساب کی ضرورت ، اہمیت اور افادیت پر گفتگو کی گئی ہے - ڈاکٹر صاحب کا تعلق چونکہ پڑوس ملک سے تھا تو اسی کے حوالے سے احتساب کی اہمیت پر قلم اُٹھایا ہے  - 
دسویں باب میں اسلامی نظامِ سیاست میں جماعتوں کے وجود پر بحث کی ہے - اسلامی نظام میں سیاسی جماعتوں کی کیا حیثیت ہے اور تاریخی لحاظ سے ان کا وجود کتنا ثابت ہے - اسے تفصیلاً بیان کیا گیا ہے - اس ضمن میں حق رائے دہندگی پر بھی روشنی ڈالی ہے - آخری باب میں خواتین کے ووٹ دینے کے حق اور اس کی نوعیت سے بحث کی ہے - ڈاکٹر صاحب نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں نیز تاریخی واقعات سے یہ ثابت کیا ہے کہ عورت کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے ' اسے اس حق سے محروم کرنا ہرگز مناسب نہیں - 
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے جہاں اس کتاب میں قرآن و حدیث سے استدلال کیا ہے وہیں پر علمائے اسلام اور فقہائے عظام کی عبارتوں اور تحریروں سے بھی استشہاد کیا ہے - کتاب اپنے موضوع پر ، بعض مضامین میں تکرار کے باوجود ، کافی و شافی ہے - ضروری نہیں کہ مصنف کی جمیع آراء سے لازماً اتفاق ہی ہو تاہم یہ کتاب اپنے استدلالی منہج سے قاری کو 
متاثر کرتی ہے - کتاب کے مطالعہ سے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی دقّت نظر ، قوّتِ استنباط ، تعمقِ فکر ، تبحر علمی اور طریقہ استدلال کا اندازہ ہوتا ہے - امید ہے یہ کتاب علمی حلقوں میں ذوق و شوق سے پڑھی جائے گی - 

( شکیل شفائی)


Views : 17

Leave a Comment