سیرۃ البخاری از مولانا شوکت حسین کینگ پر ایک نظر
(قسط 35 )
(سلسلہِ ملفوظات)
98۔ فرمایا: علماء کو اپنے سے پست درجے ، بے سند اور نادان لوگوں کے ساتھ علمی معاملات میں بحثا بحثی نہیں کرنی چاہیے -
( علم ' وقار ، تمکین اور بردباری کا متقاضی ہوتا ہے - صاحبِ علم کو ہرگز لائق نہیں کہ وہ ایسے امور کا ارتکاب کرے جنہیں عُرف میں دِنایَت سے تعبیر کیا گیا ہو ، ان میں پست درجے کے بداخلاق اور خسیس الفطرت لوگوں سے بحث و مناقشہ کرنا بھی شامل ہے ہر چند انہوں نے علم یا طالب علمی کا جھوٹا غازہ بھی چہرے پر کیوں نہ مَلا ہو - ضابطے کے ساتھ علم حاصل کرنے اور پھر تربیتی مراحل سے گزرے بغیر ہی جو آوارہ مزاج خود ساختہ شیخ المشائخ کی مسند پر بیٹھ گئے اور اب ان کا پیشہ ہی ہر صاحب علم کی آبرو ریزی ہو ، علماء کو چاہیے کہ ایسے سفلہ خصلت لوگوں کو منہ نہ لگائیں - لیکن افسوس کہ آج مسلک و مذہب کی عصبیت میں ایسے ہی لوگوں کے سر پر دستارِ فضیلت رکھی جاتی ہے)
99۔ فرمایا: علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال علیہ الرّحمہ کے قلبِ مبارک میں ملت اسلامیہ کا درد تھا - انہوں نے اسلام کا مطالعہ گہرائی سے کیا تھا -
( علامہ اقبال رح ملت اسلامیہ کے حُدی خواں تھے - ان کا ایک مشہور مصرعہ ہے ع " مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے" اس کا وہ سب سے اولین مصداق تھے - اقبال پر کی گئی بیشتر تنقیدات معیاری نہیں ہیں تاہم وہ ایک انسان تھے اور کوئی انسان غلطیوں سے مبرّا نہیں ہوتا البتہ انہوں نے اپنے کلام سے امت کی بیداری میں کلیدی کردار ادا کیا - کلامِ اقبال کے مطالعہ کی کئی جہتیں ہو سکتی ہیں - اول یہ کہ وہ اسلامی شاعر تھے اور انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اسلامی تعلیمات کا مغز پیش کیا - دوم یہ کہ وہ ایک مفکر تھے ان کا کلام ان کے مفکرانہ نظریات کا آئینہ دار ہے - سوم یہ کہ وہ ایک فلسفی تھے اور انہوں نے اپنے کلام کے ذریعے فلسفیانہ تعبیرات کا عطر پیش کیا - چہارم یہ کہ وہ دانشور اور سماجی نقاد تھے انہوں نے اپنے کلام کے ذریعے مغربی فلسفہ ، تعلیم ، اور تہذیب و تمدن کی کمزوریوں نیز مسلم معاشرے میں پنپنے والی خرابیوں کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا - پنجم یہ کہ ان کی شاعری اعلیٰ تخلیقی معیار کی حامل تھی جس کا لفظیاتی نظام نہایت محکم اور مستحکم تھا جس سے زبان کی ترقی کے امکانات وسیع تر ہوگئے - اقبال کے مطالعہ کی اور بھی جہتیں ہیں جن سے یہاں صرفِ نظر کیا جارہا ہے کیونکہ بنیادی طور پر وہ امت مسلمہ کے سچے بہی خواہ اور ہمدرد تھے - اقبال کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے وہ اس کی گواہی پیش کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کی زبوں حالی سے وہ کس قدر رنجیدہ تھے - اپنے تخیلات میں انہوں نے جن نظموں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تخاطب کیا ہے ان میں صرف اور صرف امت کا غم ہر ہر حرف سے چھلکا پڑتا ہے - رحمہ اللّٰہ)
100۔ فرمایا: میں نے شیخ الاسلام جناب مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری علیہ الرحمہ کو دیکھا - آپ پیرانہ سالی میں بھی علمی معاملات میں ایک نوجوان کی طرح تازہ دم تھے - زندگی کے آخری ایام میں بھی علمی مشغولیات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا -
( یہی متبحّر علماء کی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ کسی طور اپنے آپ کو علمی مشاغل سے چھڑا نہیں سکتے - مولانا امرتسری رحمہ اللہ نے جن مشائخ سے علم حاصل کیا تھا ان کا امتیاز ہی فنا فی العلم ہوجانا تھا اور اسی روایت کی پاسداری مولانا مرحوم نے بھی کی - یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ آج علماء میں علمی مشاغل کا سلسلہ جاری نہیں ہے البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تسلسل میں بہت کمی آئی ہے - آج جو لوگ علمی محفلوں کے صدر نشین بنے ہوئے ہیں ان میں اور علمی مشاغل میں بُعد المشرقین واقع ہوا ہے جسے کوئی بھی شخص محسوس کرسکتا ہے الا ماشاءاللہ)
101۔ فرمایا: حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی رح نے مدرسہ عبدالرب میں حیاتِ نبوی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم پر تقریر کی - اس سلسلہ میں " إنك ميت و إنهم ميتون" آیت شریفہ تلاوت کی - علامہ عثمانی رح نے فرمایا: عام علماء جو اس کا ترجمہ کرتے ہیں وہ اصلاً ترجمہ نہیں ہے - ترجمہ یہ ہے: إنك ميت: " آپ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کو بھی عالمِ آخرت کی جانب روانہ ہونا ہے وإنهم ميتون: " عامۃ الناس کو بھی کوچ کرنا ہے - اگر عام مترجمین کا عامیانہ ترجمہ مراد لیا جائے تو قرآنی اسلوب یہ ہونا چاہیے تھا: إنك و هؤلاء ميتون " -
( اسلامی نقطہِ نظر سے موت فنا ، ناپید ، نابود اور معدومِ محض ہونے سے عبارت نہیں ہے - یہ صرف روح کا انتقال ہے - پھر برزخی اور اس کے بعد آخرت کی زندگی کے بھی لوازمات ہوں گے - ایسا بھی نہیں ہے کہ عالَمِ برزخ اور عالَمِ دنیا کے درمیان رابطے کی کوئی شکل موجود نہیں رہتی - مرنے کے بعد عام انسانوں میں بھی حیات کے کچھ نہ کچھ آثار موجود رہتے ہیں جن پر راحت یا عقوبت کی کیفیات کا ترتب ہوتا ہے - پھر جس انسان کی روح جتنی مُزکّیٰ ، مُصفّیٰ اور مُجَلّیٰ ہوتی ہے اس پر برزخی حیات کے آثار بھی اتنے ہی قوی ہوتے ہیں - چونکہ انبیاء علیہم السلام کی روحیں سب سے زیادہ پاکیزہ ہوتی ہیں لہذا حیات کے آثار ان پر اتنے قوی ہوتے ہیں کہ زمین ان کے اجساد مقدسہ پر اپنا اثر مرتب نہیں کر پاتی - اسی کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: "إن الله حرّم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء " ( ابوداؤد/نسائي - صحيح)
چونکہ سرکارِ دوعالم کی روحِ پُر فتوح پاکیزگی کے سب سے اعلیٰ و ارفع و افضل درجے پر فائز ہے لہذا آپ (ص) کی حیات بعد الوصال پر امت کے جمیع طبقات کا اتفاق ہے - اختلاف جو کچھ ہے وہ کیفیات میں ہے - محققین نے آپ ( ص) کی حیات بعد الوصال کو قوی تر قرار دیا ہے اس کی دلیل میں قرآن وحدیث کی کئی نصوص پیش کی گئی ہیں نیز اس پر تواتر کے ساتھ واقعات و تجربات کا ایک لا متناہی سلسلہ دلالت کرتا ہے -
چونکہ موت کا لفظ عام طور پر انعدامى معنی میں استعمال ہوتا ہے لہٰذا ممکن ہے کسی ایک یا بعض مترجمین نے جو ترجمہ کیا ہو وہ ذات کے کلی انعدام کا شُبہ پیدا کرتا ہو - اسی شُبہ کو شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے دور کیا - اول تو انہوں نے میت کا ترجمہ انتقال سے کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال اور عام لوگوں کے انتقال میں فرق ثابت کیا - اگر دونوں کے انتقال کی نوعیت یا کیفیت ایک ہی ہوتی تو پھر " إنك ميت و إنهم ميتون" کہنے کی ضرورت نہیں تھی - " إنك و هؤلاء ميتون" کہنا کافی تھا - چونکہ بعد از وصال رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو قوی تر حیات حاصل ہے لہذا امتیاز پیدا کرنے کے لیے لفظ میت کی تکرار ہوئی تاکہ دونوں کو ایک ہی سمجھنے کا شُبہ پیدا نہ ہو -
واقعی شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے لاجواب نکتہ دریافت کیا ہے جو ان کی گہری قرآن فہمی پر دلالت کرتا ہے -
102۔ فرمایا: حضرت مفتی اعظم ہند رح نے دورانِ درسِ حدیث ایک مرتبہ فرمایا:
" اتفق العلماء أنه بشر خلافاً لعلي الفوري"
یعنی " تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بشر تھے ، سوائے پیر جماعت علی شاہ صاحب کے " -
دراصل ان دنوں یہ افواہ زوروں پر تھی کہ حضرت پیر سید علی شاہ صاحب علی پوری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر نہیں مانتے ہیں بلکہ آیت کریمہ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں" قل إنّ ما أنا بشر" یعنی فرمائیے کہ بےشک میں بشر نہیں ہوں "
دراصل یہ تہمت تھی حضرت پیر صاحب پر لیکن افواہ زوروں پر تھی لہذا مفتی صاحب نے دورانِ درس پیر صاحب پر طنز کیا -
میں نے حضرت مولانا سید محمد اشرف صاحب اندرابی سے استفسار کیا کہ آپ بھی پیر صاحب سے بالواسطہ فیض یاب تھے ، اس افواہ کی حقیقت کیا تھی ؟ فرمایا پیر صاحب دراصل فرماتے تھے:
محمد بشر لا كالبشر
ياقوت حجر لا كالحجر
لیکن مخالفین و معاندین نے پیر صاحب پر تحریفِ قرآن کی تہمت لگائی -
( ختمی مرتبت سیّدنا و شفیعنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم از روئے قرآن و حدیث یقیناً بشر تھے اور اس میں کسی کا اختلاف ثابت نہیں البتہ خود آپ ( ص) نے اپنے کچھ امتیازات ، خصوصیات اور ممیّزات بیان فرمائے جن کی بنا پر علماء نے لکھا کہ کہ آپ (ص) بشر تو تھے لیکن عام بشر نہیں تھے - اس سلسلے میں قرآن کی بعض آیات سے بھی استشہاد کیا گیا ہے - قل انما انا بشر مثلکم سے جملہ خواص میں بشریت کا ثبوت نہیں ہوتا یہ آیت بعض خواصِ بشریت کا اثبات کررہی ہے کیونکہ منکرین بعض ایسی باتوں کا تقاضا کررہے تھے جن کا وقوع اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف تھا نہ کہ پیغمبر علیہ السلام کی مشیت پر - پھر پیغبر اور عام لوگوں میں صرف نزولِ وحی کا ہی فرق نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے بلکہ خواصِ بشریت میں بھی فرقِ عظیم ہے - میرے خیال میں پیر صاحب نے بڑی عمدہ توجیہ کی ہے کہ آپ (ص) بشر تو تھے البتہ عام بشر نہیں تھے جس طرح یاقوت ہرچند پتھر ہی ہوتا ہے لیکن عام پتھروں سے اس کو کوئی نسبت نہیں ہوتی - کہاں یاقوت اور کہاں سڑک کا روڑا !! )
( یہاں پر سلسلہِ ملفوظات اختتام کو پہنچا - اگلی قسط گیارہویں باب پر مشتمل ہوگی - ان شاءاللہ)
(شکیل شفائی)