غالب کی یاد میں


Dr Shakeel Shifayi
Sunday 29th of December 2024 12.25 pm
               

گو ہاتھ کو جُنبِش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے 
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مِرے آگے 

غالب کا مشہور شعر ہے اور انسانی فطرت و جبلت اور نفسیات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے - 
غالب کی مے نوشی ممکن ہے غرضِ نشاط کو متضمن نہ ہو بلکہ یک گونہ بیخودی ہی اصلی مقصود ہو تاہم یہ قاتل ایک بار منہ لگی تو پھر چھوڑے نہ چھوٹے - 
لیکن یہ محض کسی خاص صورتحال کی عکاسی نہیں ہے بلکہ بالعموم انسانی نفسیات کا المیہ ہے کہ کسی چیز سے انسان کی محبت ، دلبستگی اور پھر طول طویل آرزوؤں اور تمناؤں کا غیر مختتم سلسلہ اسے ، قُویٰ کے مضمحل ہونے پر بھی ، الجھائے رکھتا ہے اور وہ ساغر ہاتھ میں اٹھا بھی نہ پائے تاہم نظروں کے سامنے رکھے جانے پر مُصرّ رہتا ہے - 
انسان کے وجود میں خواہشوں ، تمناؤں اور آرزوؤں کی ھل من مزید والی احتجاجی  صدائیں ہمیشہ گونجتی رہتی ہیں بھلے ہی وہ خارجی محرکات سے انہیں ظاہر و مسموع نہ ہونے دے اور جوں جوں رہوارِ عمر آگے بڑھتا جاتا ہے اس میں یک گونہ شدت پیدا ہوتی ہے - کائنات کے سب سے بڑے ماہرِ نفسیات پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث یاد آرہی ہے جسے امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری قدس سرہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے: 
" لا يزال قلبُ الكبير شابّاً في اثنتين : في حب الدنيا و طول الأمل " 
(بوڑھے آدمی کا دل دو چیزوں میں ہمیشہ جواں رہتا ہے - دنیا کی محبت اور طویل آرزو) 
غالب انسانی نفسیات کے ماہر تھے یا نہیں  اس کی مجھے اطلاع نہیں لیکن انہوں نے اپنی شاعری میں انسانی نفسیات کے متعدد مخفی گوشوں سے نقاب کشائی کی ہے اسی لیے ان کا کلام قاری کو گہرے طور پر متاثر کرتا ہے اور نقاد یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاعری محض قافیہ پیمائی کا نام نہیں ہے اور نہ مشاعروں میں کیفیت سے بھرے ہوئے اشعار پڑھ کر سامعین میں وقتی اُبال پیدا کرنے کا نام ہے بلکہ یہ سامنے کی ایک عام چیز کو اپنی تخلیقی صلاحیت اور رویے سے زندگی کی ایک انمٹ حقیقت کا روپ عطا کرنے اور درس و عبرت کی گہری روایتوں کو بازیافت کرنے کا نام ہے - اسی لیے ہر شخص غالب نہیں ہو سکتا - 
انسانی نفسیات کی ان گُھتوں کو صوفیائے کرام نے بہتر طور پر سمجھا ہے - سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 
" إن أخوف ما أخاف عليكم اتباع الهوى و طول الأمل - فأما اتياع الهوى فيصدّ عن الحق و أما طول الأمل فيُنسي الآخرة " 
( میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ خواہش کی پیروی اور امید کی طوالت ہے - خواہش کی پیروی حق سے روک دے گی اور امید کی طوالت آخرت بُھلا دے گی)
حضرت محمد بن واسع رحمہ سے کہا گیا: " كيف تجدك ؟" ( آپ خود کو کس حال میں پاتے ہیں ؟) فرمایا: " قصير الأجل ، طويل الأمل ، مسيئ العمل" ( عمر کم ، آرزو طویل اور عمل خراب)
حضرتِ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
" أربع من أعلام الشقاء:  قسوة القلب و جمود العين و و طول الأمل و الحرص على الدنيا" 
( چار چیزوں بدبختی کی علامت ہیں: دل کی سختی ، آنکھوں کی خشکی ، آرزو کی طوالت ، دنیا کا لالچ) 
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
" خمسة من علامة الشقاء:  قسوة القلب و جمود العين و قلة الحياء و الرغبة في الدنيا و طول الأمل 
و خمسة من السعادة: 
اليقين في القلب و الورع في الدين و الزهد في الدنيا و الحياء و العلم " (كتاب الزهد لابن أبي الدنيا) 
( پانچ چیزیں بدبختی کی علامت ہیں: دل کی سختی ، آنکھوں کی خشکی ، حیاء کی کمی ، دنیا کی رغبت اور آرزو کی طوالت 
اور پانچ چیزیں سعادت کی علامت ہیں: قلبی یقین ، دینی خشیت ، دنیا سے بے رغبتی ، حیا اور علم)

امام قرطبی رحمہ اللہ نے آیت " و يلههم الأمل" کی تفسیر میں لکھا ہے : " یشغلهم عن الطاعة " 
( یعنی امیدوں میں اتنے گر گئے کہ اللہ کی اطاعت ہاتھ سے جاتی رہی) ( الجامع لأحكام القرآن) 

لیکن اگر امیدیں اور آرزوئیں ہی نہ ہوں تو پھر دنیا کا کاروبار کیسے چلے گا ؟ امید پر تو دنیا قائم ہے - اس کا مطلب یہ ہے کہ امیدوں اور آرزوؤں کا قلع قمع کرنا مقصودِ نہیں ہے بلکہ ان میں شدت اور غلو اختیار کرنا مذموم ہے - انسان کی تمام فتوحات ، کمالات اور اکتشافات کا سرا آرزوؤں کی بالیدگی سے جُڑا ہوا ہے - لہٰذا خوابوں کا زندہ رہنا بھی اپنے درجے میں ضروری ہے - 
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 
" و في الأمل سرّ لطيف لأنه لو لا الأمل ما تهنى أحد ولا يعيش ولا طابت نفسه أن يشرع في عمل من أعمال الدنيا ، و إنما المذموم منه الاسترسال فيه و عدم الاستعداد لأمر الآخرة - فمن يسلم من ذلك لم يكلف بإزالته و سبب طول الأمل الجهل و حب الدنيا " ( فتح الباري)
( آرزو پالنے میں ایک لطیف راز ہے ،  کیونکہ اگر آرزو ہی نہ رہے تو کوئی کسی معاملے میں خوشی محسوس نہ کرے ، نہ دنیا کے کاموں میں سے کسی کام کو انجام دینے میں جی لگے - مذموم یہ ہے کہ آرزوؤں کا تانتا بندھ جائے اور آخرت کے لیے کوئی تیاری نہ ہو - جو شخص آرزو کی اس مذموم صورت سے محفوظ رہا اس کو جذبہِ تمنائی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مکلف نہیں بنایا جا سکتا اور آرزو کی طوالت کا سبب جہالت اور دنیا کی محبت ہے - 
بہرحال غالب کے اس شعر کو مے نوشی سے غالب کی شدتِ محبت پر محمول کرنے کی بجائے یہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ غالب اس شعر میں انسان کی کسی چیز سے غلو آمیز محبت کی نفسیات سے پردہ اٹھا رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انسانی خواہشات و شہوات پر بروقت قابو پانے کی کوششیں نہیں ہوئیں تو یہ بڑھاپے کی حالت میں بھی جبلی تقاضوں کے تحت اپنا اصلی رنگ دکھاتی ہیں - 

(شکیل شفائی)


Views: 96

Last Comments