استاذی پیر غلام رسول چشتیؒ
بنیادی طور پر تمام علوم کو دو حصوں میں تقسیم،یا جاسکتا ہے۔ایک علم کا دائرہ دنیاوی علوم پر محیط ہے اور دوسرے علم کا احاطہ دینی علوم پر مشتمل ہے۔جیسے دنیاوی علوم کی مختلف شاخین ہیں اور ہر شاخ کے اپنے اپنے ماہر ہوتے ہیں ویسے ہی دینی علوم کے بھی ماہر ہوتے ہیں اور ان علوم کی بھی مختلف شاخیں ہوتی ہیں اور ہر شاخ کا کوئی نہ کوئی بڑا ماہر ہوتا ہے۔لیکن اللہ کے بندوں میں سے کچھ مخصوص بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اگر چہ ہر شاخ کے ماہر نہیں ہوتے ہیں لیکن ضرورت کی حد تک انہیں ہر شاخ کا کچھ نہ کچھ علم ہوتا ہے اور اپنے اُس وسیع معلوماتی بنیاد پر وہ ہر شاخ کے ماہرین کی نظروں میں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ایسے بندگان خدا ہر دور میں کسی نہ کسی مقدار میں عموماً پائے جاتے ہیں وہ وہ اپنے وسیع معلومات اور تجربات کی بنیاد پر معاشرے کی نگاہوں میں ہردلعزیز ہوتے ہیں۔استاذی مرحوم پیر غلام رسول صاحب ؒ بھی ایسے ہی ہردلعزیز اور نیک بندگان خدا میں سے ایک تھے۔ مجھ ناچیز کی تعلیم و تربیت میں ان کا ایک خاص رول رہا ہے۔اللہ آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
آپ پیدائشی طور پر قصبہ بارہمولہ کے محلہ جلال صاحب کے ایک پشتنی باشندے تھے۔اور آپ کے والد صاحب بھی ایک صاحب دل آدمی اور بزرگ تھے جو موضع فتح گڈھ میں برسوں امامت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔اور یوں آپ کے بزرگوں سے لیکر آپ تک آپ اس بستی کے تقریباً سو سال تک مذہبی و روحانی پیشوا رہے۔ آپ کی کوئی اولاد نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ بیسوی صدی کے آخری عشرے میں کٹ گیا۔اور اپنے سفر آخرت پر روانہ ہونے سے قبل اپنے چند قلمی اور علمی شاہکار اور منظوم کلام کے پارچے ایک خادم کے ہاتھ میرے پاس ایک خط کے ساتھ ارسال کیے جس کے الفاظ اس طرح تھے:
”پیارے یہ چند نسخے آپ کو روانہ کرتا ہوں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ قبر میں میرے کرم خوردہ ہونے سے پہلے ہی یہ نسجے کرم خوردہ نہ بن جائیں“
اس کے علاوہ فارسی زبان کی مشہور سیرتی کتاب معارج النبوۃ فی مدارج الفتوۃ بھی ان نسخوں کے ساتھ تھی۔ آپ نے عصری تعلیم اس دور میں میٹرک تک پائی تھی جس دور میں پرائمری پاس ہونا بھی ایک کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔دینی تعلیم میں آپ کے استاد ”داعی توحید مولوی عبد الولی شاہ صاحب ؒ“ تھے۔ آپ نے کئی پاروں کی تفسیر ان سے درساً پڑھی تھی۔اس کے علاوہ آپ فارسی زبان کے ایک اعلیٰ پایہ کے ماہراستاد تھے۔ آپ نویں اور دسویں جماعت کے طلباء کو فارسی پڑھاتے تھے لیکن مجھے انہوں نے بالترتیب بی۔اے اور ایم۔اے فارسی میں بڑی مدد کی۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دسویں پاس استاد جو ایم۔اے والے کو پڑھائے کس درجہ کا ذہین آدمی ہونا چاہیے۔چنانچہ بی۔اے اور ایم۔اے کی دو کلاسوں میں فارسی ڈرامے ہمارے کورس میں تھے۔ان کا ترجمہ آسان اردو میں مجھے کر کے دیا۔بعد میں کسی ماہر تعلیم نے ان کا ترجمہ شائع کیا لیکن جو چاشنی مجھے اپنے استاد مکرم کے ترجمے میں محسوس ہوئی تھی۔وہ ان صاحب کے ترجمے میں مجھے نہیں دکھائی دی۔ 1975 عیسوی میں مجھے ایک دفعہ دعوتی محنت کے سلسلے میں ہندوستان کی چند ریاستوں میں سفر کرنے کا موقعہ ملا۔میں نے اپنے استاد محترم سے گذارش کی کہ اس کے دوران مسجد میں فضائل اعمال کی تعلیم کی ذمہ داری سنبھالیں۔ چند دنوں تک تو انہوں نے تعلیم کی لیکن مقتدیوں کی بے رغبتی دیکھ کر ایک دفعہ مجھے خط لکھا جس میں اسطرح سے ادبی زبان میں مجھے مخاطب بنا کر لکھا تھا کہ:
”عزیز من آپ نے چلہ پر نکلنے کے وقت مجھے اپنی دکان پر مال بیچنے کے لیے رکھا تھا لیکن بدقسمتی سے گاہکوں کی کمی کی وجہ سے مجھے دکان بند کرنی پڑی جس کا مجھے بہت افسوس ہے “۔
آپ یوم والدین کے موقعہ پر کشمیری زبان میں طلباء کو خود منظوم کلام بنا کر پڑھنے کو دیتے تھے ایک دفعہ ژاٹہ ہل عنوان کے تحت ایک نظم بنائی جس کے دو شعر آج تک میرے ذہن میں گونجتے ہیں ؎
ببن اوس گندنس مہ کرفیو لگومت
گندن بال اَوُٹ آف بوُنڈ اوس بنیومت
یہ کرکٹ تہ ہاکی تہ بال گندناوان
یہے ژاٹہ ہل میون یہے ژاٹہ ہل میون
آپ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد حج کیا۔تما م مکاتب فکر کے لوگوں کے ساتھ بہت ہی مشفقانہ برتاو کرتے تھے اور اگر مسجد میں کوئی عالم آتا تھا تو فوراً پیچھے ہٹ کر امامت اسی سے کرواتے تھے۔ بعد وفات آپ کو اپنے مکان کے صحن میں سپرد خاک کیا گیا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را