" ذاتی ڈائری کا ایک صفحہ"
ستمبر 10، 2023 ، یک شنبہ ، 23 صفر المظفر 1445ھ
دن کے بارہ بجے ہیں ، میں کتب خانے میں بیٹھا ہوں - سامنے کتابوں کا ڈھیر ہے ، چاہیے تو یہ تھا کہ میں اپنی تمام سرگرمیاں معطل کرکے ، ایک معنی میں تجرد اختیار کرکے ، علمی اعتکاف میں کھو جاتا لیکن کسی نے سچ ہی کہا ہے :
ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
پروفیسر جوہر قدوسی " جہانِ حمد و نعت" کے نام سے ایک سنوی مجلہ نکالتے ہیں - پچھلے دو ایک برس سے میری بھی کچھ نثری اور نظمی نگارشات اس میں شائع ہوتی ہیں - اس کا چوتھا شمارہ ابھی چند دن پہلے شائع ہوا - کل یعنی 9ستمبر کو پروفیسر صاحب کا فون آیا کہ میں نے چوتھے شمارے میں آپ کا اداریہ اور ایک نعت شامل کی ہے - آپ کا مقالہ اور ایک مکتوب پانچویں شمارے میں شائع ہوں گے - پانچواں شمارہ ہفتہ عشرہ میں بازار میں آرہا ہے - میں کوئی ساڑھے تین بجے جوہر صاحب کے دفتر واقع گاؤ کدل گیا اور یہ شمارہ لے آیا - رات کو چند سطور اس کے بارے میں لکھ کر فیس بُک پر شائع کیں -
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کشمیر یونیورسٹی میں اسی (80) کی دہائی میں شعبہ اردو کے سربراہ رہے ہیں - ان کا ایک کتابچہ " غلام السیدین - اقدار کا تعلیمی تصور" دو ایک دن پہلے نظر سے گزرا - اس میں انہوں نے مشہور ماہرِ تعلیم اور دانشور " خواجہ غلام السیدین" کے تعلیمی تصورات پر قلم اٹھایا ہے - مجموعی طور پر اس رسالے سے خواجہ صاحب (جو کشمیر میں ناظمِ تعلیم بھی رہے ہیں) کے تعلیمی تصورات کی کوئی منضبط شکل سامنے نہیں آتی - مجھے یہ مقالہ کچھ منتشر نظریات پر مشتمل نظر آیا - مصنف نے اجمالی گفتگو سے زیادہ کام لیا ہے جو خواجہ صاحب کی خصوصیت یا انفرادیت پر روشنی نہیں ڈالتی تاہم بیچ بیچ میں ایسے جملے نظر سے گزرتے ہیں جن سے خواجہ صاحب کے تعلیمی افکار کا ہلکا سا خاکہ سامنے آجاتا ہے ، ممکن ہے مصنف کی یہی غرض ہو -
فرقہ پرستی کو سب ہی لوگوں نے ہمیشہ ناپسند کیا ہے - فرقہ وارانہ سوچ کسی بھی ملک کے لیے سم قاتل ہوتی ہے جو اس قوم کی تہذیب و ثقافت کے خاتمے پر منتج ہوتی ہے - ڈاکٹر شکیل الرحمٰن لکھتے ہیں:
" خواجہ غلام السیدین نے اپنے مقالے
" culture vs prejudice "
میں بتایا ہے کہ کلچر اور محدود نقطہِ نظر میں کوئی میل نہیں ہے - محدود نقطہِ نظر سے ذہن تہذیبی اور تمدنی قدروں کے جوہر سے محروم ہوجاتا ہے - عصبیت اور کٹرپن سے قدریں مجروح ہوتی ہیں - انتہا پسندی قدروں کو ہمیشہ نقصان پہنچاتی ہے " ص(27)
ہندوستان بہت سی زبانوں کا گہوارہ رہا ہے - آزادی کے بعد زبان کا مسئلہ کافی اہم بن چکا ہے ، آج بھی اتنی الجھنیں ہیں کہ خدا کی پناہ ! سیاست نے اسے تعلیم کا نہیں ، خود اپنا مسئلہ سمجھ لیا ہے " ص(32)
ہندوستان کے دریچے خوشبوؤں سے بھری ہوئی ہواؤں کے لیے ہمیشہ کُھلے رہے ہیں ، اپنا ذہن اور اپنا دل بھی اسی طرح کھلا رہے تاکہ نئی قدروں کے آہنگ کا احساس زیادہ سے زیادہ بالیدہ بنتا جائے - ثقافتی احیاء
(cultural revivalism)
کی آواز ان تمام دریچوں کو بند کردے گی - ثقافتی احیاء اور سنسکرت کی واپسی کے نعرے خطرناک ہیں " (37)
خواجہ غلام السیدین نے اپنے مقالہ
" culture vs prejudice"
میں چند حقائق کا انکشاف کرتے ہوئے تعلیمی اقدار کی اہمیت اور آزادی فکر کو روشن کیا ہے - انہوں نے اس کی وضاحت کی ہے کہ مختلف مذاہب اور نسل کے لوگ ایک ملک میں رہتے ہیں تو یہ کوئی شرم کی بات نہیں ہے ، یہ لوگ قومی زندگی کی چمن بندی کرتے ہیں - ان کی وحدت کو قائم رکھنا ضروری ہے - اتحاد کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ زبان ، لباس اور طور طریقے میں یکسانیت پیدا ہو ، یکسانیت پیدا کرنے کی آواز گمراہ کن ہے " (ص36)
خواجہ صاحب سے بعض نظریات میں اختلاف کی گنجائش ہوسکتی ہے ، بعض نظریات دراصل اس ماحول کا نتیجہ ہوسکتے ہیں جس میں انہوں نے نشوونما پائی یا زندگی کا بڑا حصہ گزارا تاہم وہ ایک پڑھے لکھے انسان تھے ، انسانیت کا گہرا شعور رکھتے تھے اور قوم کے سچے بہی خواہ تھے - ایسے لوگ اب خال خال ہی ملتے ہیں -
(شکیل شفائی)
Views : 36