مداہنت کیا ہے ؟
جہاں عصر حاضر میں کام کرنے والی دینی جماعتوں اور مکاتب فکر اور تنظیموں کے تنزل کی بہت ساری وجہیں ہو سکتی ہیں ۔وہیں ایک خاص وجہ جو میں تجربے کی بنیاد پر کہنے کی جسارت کرتا ہوں یہ ہے کہ دینی جماعتوں کے ذمہ دار حضرات اور کارکن اپنے تنظیمی سیٹ اپ میں پنپتی بے اصولیوں کے بارے میں مداہنت سے کام لیتے ہیں۔ مداہنت کیا ہے اس سے متعلق بہت سارے اقوال ہمارے اسلاف سے منقول ہیں ۔ابن کیسان فرماتے ہیں ک "المدهن : الذي لا يعقل ما حق الله عليه ، ويدفعه بالعلل " ترجمہ: وہ شخص جو خدا کی اس بات کو نہ سمجھے جو اس پر عائد کی گئی ہے، اور دلائل کے ساتھ اس کی تردید کرتا ہے۔اسی طرح ابن عباس وعطاء وغيرهما فرماتے ہیں" والمدهن : الذي ظاهره خلاف باطنه ، كأنه شبه بالدهن في سهولة ظاهره"(ترجمہ)"المدهن": وہ شخص جس کا ظاہر اس کے باطن کے خلاف ہو، گویا اس کو نرمی اور چکناہٹ کی وجہ سے تیل سے تشبیہ دی گئی ہے۔
اہل علم نے مداہنت کی تعریف اس طرح کی ہے کہ " کسی دنیاوی غرض یا مفادات کی خاطر اس بات سے خاموش ہو جانا کہ جس کا بولنا یا کہنا واجب تھا اور اس قول و فعل کو ترک کر دینا جس کا کرنا یا کہنا واجب تھا۔"اہل زبان کے نزدیک مداہنت کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ "جو چیز انسان نے اپنے ضمیر میں چھپا رکھی ہو، اس کے برعکس اس کا اظہار کرے یعنی منافقت کی ایک صورت ہے۔"
جہاں تک اس مذموم صفت کا تعلق ہے اس کے بے شمار اسباب ہو سکتے ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔ مثلا :اہل مال کی قربت حاصل کرنے کے لیے یا خود مال کی طلب یا عہدے کی خواہش یا کسی بڑے انسان کی قربت چاہنے کےلیے یا کسی بھی حزبی جماعت کی نصرت و حمایت یا اپنی ذات کی شہرت اور برتری یا خواہشات کے غلبے کے تحت مداہنت کا رویہ اختیار کرنے پر انسان مجبور ہو جاتا ہے، یعنی اس میں مداہنت پیدا ہوتی ہے۔اس کیایک سبب دنیوی غرض بھی ہو سکتی ہے کہ بندہ کسی دنیوی غرض کی وجہ سے برائی سے منع نہیں کرتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دنیوی اغراض و مقاصد کو اُخروی اغراض و مقاصد پر ترجیح دینے کے وبال پر غور کرے کہ جو لوگ آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں۔وہ حق کہنے سے کتراتے نہیں ہیں ۔ اسی طرح ایک وجہ جہالت کا ہونا بھی ہوسکتا ہے کہ بندہ جب امر بالمعروف یعنی نیکی کی دعوت دینا اور نہی عن المنکر یعنی برائی سے منع کرنے کی مختلف صورتوں کے بارے میں علم حاصل نہیں کرتا، تو مداہنت یعنی برائی دیکھ کر اُسے منع کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود منع نہ کرنے جیسے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔مداہنت کا ایک سبب قرابت (رشتے داری) ہے کہ بندہ جس شخص میں برائی دیکھ رہا ہے وہ اس کا قریبی رشتہ دار ہے۔ لہٰذا یہ روکنے پر قادر ہونے کے باوجود اُسے منع نہیں کرتا۔مشاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ کسی شخص کا شخصی تفوق بھی کبھی کبھار اس کے خلاف دین اقدام کی تردید کرنے سے اہل علم احباب کو مداہنت پر مجبور کرتا ہے ۔ حالانکہ یہ چیز ہمارے اسلاف کو کبھی احقاق حق سے نہ روک سکی کیونکہ ان کے نزدیک حق معیار ہوا کرتا تھا ۔
مداہنت کے اس مرض میں اس وقت بڑی بڑی شخصیتیں بالواسطہ یا بلا واسطہ مبتلا ہو چکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کا کوئی کارکن اگر کسی خلاف شرع امر یا خلاف ضابطہ معاملہ میں گرفتار ہو جاتا ہے تو جماعت کے اصحاب اثر و رسوخ اور ذمہ داران یاتو چپ سادھ لیتے ہیں یا صلح کل بن کر گویا اپنے کار کنوں کے افعال شنیع کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ دین بدنام نہ ہو جائے یا اس وقت مصلحت اسی میں ہے کہ خاموشی سادھ لی جائے کیونکہ ہر کوئی دین پر حملہ آور ہے۔ کیا کمزور دلیل ہے! دین اصول کی بیخ کنی سے بدنام ہو جاتا ہے نہ کہ اصول کو زندہ کرنے سے۔اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ماضی قریب کا ایک واقعہ ہمارے لیے چشم کشا ہے۔ میں اس واقعے کو من و عن نقل کرتا ہوں
انگریز کے دور حکومت میں ہندوستان کے شہر کاندھلہ میں زمین کے ایک ٹکڑے پر ایک مسلمان اور ہندو کا تنازعہ چل رہا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ بات بڑھتی گئی حتی کہ اجتماعی نوعیت اختیار کر گئی، اب مسئلہ ایک مسلم یا ہندو کا نہ رہا بلکہ اب یہ مسئلہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا بن گیا، مسلمانوں کا کہنا تھا کہ ہمیں اگر یہ زمین مل گئی تو ہم اس پر مسجد تعمیر کریں گے، جبکہ انکے مقابل ہندوؤں کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہمیں یہ زمین مل گئی تو ہم اس پر مندر بنائیں گے۔ جب اس مسئلہ کو عدالت میں پیش کیا گیا تو انگریز بھی اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ میرا کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرنا اس ملک کے اندر اختلاف کی ایک ایسی آگ کو بھڑکا دیگا جس کا بجھانا آسان نہ ہوگا۔ اس نے غور فکر سے مقدمہ سننے کے بجائے یہ بات فریقین کے سامنے رکھی کہ اگر آپ آپس میں مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرلیں تو یہ زیادہ مناسب ہوگا۔ اس پر ہندوؤں نے انگریز جج کو تنہائی میں ایک مسلمان عالم کا نام بتانے کی پیشکش کی کہ ان کو اس تنازع کے حل کے لئے بلایا جائے جو وہ کہیں گے ہمیں وہ تسلیم ہوگا۔ اس پر مسلمان بھی راضی ہوگئے اور جج بھی خوش ہو گیا۔ اور اگلی تاریخ پر فریقین کو بھی حاضر ہونے کا حکم دیا اور اس مسلمان کو بھی پیش کرنے کا کہا جس کا انتخاب کیا گیا۔اس نامزدگی کے بعد مسلمانوں کے حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یقینی طور پر ہمیں یہ زمین مل جائے گی جبکہ دوسری طرف ہندوؤں کی مجالس میں افسردگی چھائی تھی کہ وہ مسلمان بزرگ کہیں ہمارے خلاف کوئی فیصلہ نہ سنا دیں۔ آخر وہ دن بھی آگیا اور فریقین بھی پیش ہوئے اور وہ بزرگ بھی جن کو دنیا مفتی الہی بخش کاندھلوی ؒکے نام سے جانتی ہے، جو شاہ عبدالعزیزؒ کے شاگردوں میں ایک منفردحیثیت کے حامل تھے، خدا نے ان کو اسلام کی تعلیمات سے مزین زندگی سے نوازا تھا، جو کسی بھی میدان میں حقانیت کا اعتراف کرنے والے اور باطل کے سامنے ڈٹ جانے والوں میں سے تھے۔
جب فریقین اور یہ بزرگ عدالت میں پہنچے تو مسلمانوں کو یہ منظر دیکھ کر پہلے سے بھی زیادہ خوشی ہوئی کہ مفتی الہی بخشؒ توضرور مسجد کی بات کریں گےلیکن جب جج نے اس زمین کے متعلق مفتی صاحبؒ سے پوچھا کہ یہ زمین کس کی ہے، تو مفتی صاحب نے جواب دیا کہ یہ زمین ہندوؤں کی ہے۔ اس کے بعد اگلا سوال جج کا یہ تھا کہ کیا ہندو اس زمین پر مندر بنا سکتے ہیں۔ ۔؟ تو مفتی صاحب نے کہا کہ جی بالکل وہ اس کے مالک ہیں وہ بنانا چاہیں تو بنا سکتے ہیں۔ اس منظر کو مسلم بھی دیکھ رہے تھے اور ہندو بھی چناچہ وہ پہلے ان کی بات پر رضا مندی کا اظہار کر چکے تھے لہذا اسی لئے انگریز نے ہندوؤں کے حق میں فیصلہ سنا دیا لیکن اس فیصلے کے آخر میں ایک تاریخی جملہ بھی کہا کہ " آج کے اس مقدمہ میں مسلمان ہار گئے مگر اسلام جیت گیا"۔
پھر اس واقعہ کا کیا اثر ہوا مجمع پر، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہی ہندو جو اس زمین کے حصول کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار تھے لیکن اس فیصلے کے بعد وہ کفر کی ظلمتوں سے نکل کر کلمہ حق کے سائے میں آگئے اور اس زمین پر پھر خود اپنی رضا مندی سے ایک مسجد تعمیر کر ڈالی۔
یہ رہی ہے ہمارے اسلاف کی سنت ۔ لیکن جب ہم ان بزرگوں کے نام پر روٹیاں سینکنے والو ں کو دیکھتے ہیں تو ان کا رویہ اور عمل اس کے برعکس پاتے ہیں ۔عام لوگ متنفر ہو جاتے ہیں اور ان کے قلوب میں دین مبین سے متعلق منفی سوال پیدا ہوتے ہی ،عوام ایسا اس لیے سوچتی ہے کہ وہ دین کا علم نہیں رکھتے ۔ان کو کتابوں کی ورق گردانی کا موقع نہیں ملتا بلکہ وہ ان نام نہاد دین داروں کی زندگیوں کوپڑھ کر دین پر چلنے اور نہ چلنے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔
مندرجہ بالا واقعہ کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسلام کے اصولوں کی پاسداری سے ہی اسلام زندہ ہوسکتا ہے نہ کہ اس مصلحت کوشی سے جس سے اسلام کے اصول تار تار ہو جاتے ہیں۔
Views : 265
Shakeel Shifayi
Beautiful ❤️
2024-12-21 23:37:09