رسم رونمائی عقائد الاسلام (عربی ایڈیشن )
(روداد سفر )
سالک بلال
والد محترم کو اللہ تعالی نے لکھنے کا گویا رسیا بنایا ہے ۔ان کو نثر اور نظم دونوں پر یکساں عبور ہے ۔بات سے بات نکال کر عقائد کے باب میں سوال جواب کا سلسلہ انہوں نے ٹھیک ماہنامہ راہ نجات کے شائد دوسرے یا تیسرے شمارے سے ہی شروع کیا تھا ۔ ماہنامہ میں یہ سلسلہ "دینی وشرعی اصطلاحوں کی وضاحت سوال و جواب کی روشنی میں "کے عنوان کے تحت پابندی سے نکلتا تھا ۔ علمی حلقوں میں اس کی اتنی سراہنا ہوئی کہ وادی کے اطراف و اکناف سے بہت سارے اہل علم حضرات نے اس کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی درخواست کی ۔ بہر حال والد محترم نے ہمیں ہدایت کی کہ اس گوشے میں سارے مواد کوالگ کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔ مواد کو جمع کیا گیا اور "عقائد الاسلام " کے خوبصورت عنوان کے تحت اس کو منظر عام پر لایا گیا ۔ جب یہ کتاب اہل علم حضرات کی نظروں سے گزری تو انہوں نے اس کو کافی پسند فرمایا ۔علمی حلقے میں اس کی مقبولیت کو دیکھ کر والد محترم کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی کہ اس کا اگر عربی اور انگریزی میں ترجمہ ہوتا تو عربی دان طبقہ اور انگریزی خواں طبقہ اس کے مضامین سے استفادہ کرتے ۔ ہم نے ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کی ٹھان لی ۔ اور اسکے انگریزی ترجمے کا کام میں نے خود اپنے ذمہ لیا اور عربی ترجمے کا کام حضرت مفتی سجاد حسین قاسمی استاد دار العلوم دیوبند (وقف)نے اپنے سر لیا۔ میں نے انگریزی ترجمہ تقریبا چھ مہینوں میں مکمل کیا اور حضرت مولانا نے بہت ہی کم عرصے میں عربی کا سلیس اور صاف ترجمہ پورا کر کے والد بزرگوار کی خواہش کو پورا فرمایا ۔اللہ تعالی نے مترجم موصوف کو عربی ،انگریزی اور اردو پر یکساں عبور عطا فرمایا ہے ۔ انہوں نے اس کتاب کا ایسا ترجمہ کیا کہ قاری اس کو اصل سمجھتا ہے ۔اللہ ان کو اور زور قلم سے نوازے آمین ۔کتاب کی تزئین اور فنی معاملات میں ان کے قابل قدر مشوروں نے اس کو انٹرنیشنل معیار کی کتابوں کے ہم پلّہ بنا دیا ۔ انہوں نے اس بارے میں جتنا کنسرن دیکھایا، اس احسان کا بدلہ شاید ہی میں دے پاؤں گا ۔اللہ تعالی موصوف کو جزائے خیر سے نوازے ۔یہ کتاب انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ بک نمبر کے ساتھ چھپ کرجونہی آئی تو اس کی رسم رونمائی کا مرحلہ اب پیش نظر تھا لہذا میں نے مجلس کے مؤسس ممبرڈاکٹر شکیل شفائی صاحب سے مشورہ کیاکہ رسم رونمائی کی تقریب کہاں پر مناسب رہے گی ۔ انہوں نے فرمایا کہ شہر سرینگر کے مختلف آڈیٹوریم زیر نظر ہیں ان میں سے کسی مناسب ترین آڈیٹوریم کا انتخاب کر کے میں آپکو مطلع کروں گا ۔ بہر حال اسی اثنا میں بھتیجے محمد اقبال نے مجھے اطلاع دی کہ پیر جعفر ندوی صاحب سلمہ اللہ نے اپنے آپ کو اس تقریب کی میزبانی کے لیے پیش کیا ہے ۔ میں نے ان کی پیشکش کو ان کے بڑے پن پر قیاس کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور ڈاکٹر صاحب سے گوش گذار کیا کہ اب یہ مجلس جامعہ شمس العلوم کپوارہ میں ہوگی ۔ اس خاندان کو اللہ تعالیٰ نے خیر کی تشہیر ،تائید و تصویب کے لیے چنا ہے ۔ پیر جعفر صاحب کے دادا جان کشمیر میں دعوت و تبلیغ کے موسسین میں سے ایک سرخیل بزرگ رہے ہیں ۔ وہ نرے داعی ہی نہیں بلکہ ایک جید عالم دین تھے ۔ احقرکے والد محترم یعنی آسی صاحب کو پیر شمس الدین لولابی رحمہ اللہ سے مسترشدانہ تعلق تھا ۔اگر چہ والد محترم اور پیر صاحب مرحوم ایک ہی زمانے میں دعوت کی محنت کے ساتھ وابستہ ہو ئے ہیں تاہم پیر صاحب کے تقوی طہارت کو دیکھ کر انہوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ ایک انسان کے اعلی اخلاق اور متقی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہوتی ہے کہ اس کے ہم عصر اس کو قبول کریں ۔ پیر شمس الدین صاحب کو اللہ تعالیٰ نے مشن کے ساتھ ساتھ vision بھی دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مرشدین کے بغل میں جامعہ شمس العلوم کی ایک شاندار عمارت اپنی ہی زندگی میں تعمیر کروائی ۔ اسی عمارت میں 10 نومبر 2024 عیسوی کو اس تقریب کا ہونا طے ہوا تھا ۔ چونکہ مجھے کافی عرصہ اپنے مرشد کی خانقاہ پرحاضری دینے سے ہوا تھا ۔لہذا میں نے من بنا لیا کہ میں اتوار کی رات وہی گذاروں گا اور اپنے مرشد کے جائز وارث اور مجاز حضرت پیر عبد الرشید صاحب دامت فیوضہم کی خدمت میں چند لمحات گزارنے کی سعادت حاصل کروں گا ۔
میں نے برادر یونس کو 9 نومبر بروز سنیچر ٹھیک دن کی 12 بجے فون کیا اور ان کو رفیق سفر بنانے کی خواہش ظاہر کی ۔انہوں نے میری خواہش کی لاج رکھی اور بعد ظہر سفر پر نکلنے کا اندیہ دیا ۔ بہر حال میں شیری میں ان کا انتظار کر رہا تھا اور برادر یونس ٹھیک دو بجے شیری پہنچے اور دونوں کپوارہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ بارہمولہ میں ہم ایک سومو گاڑی میں سوار ہوئے اور "وقصد فی مشیک " پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم عصر کے قریب مرشدین کے گیٹ پر پہنچ گئے اور کچھ دیر مرشدین کے صحن میں باہمی گفت شنید کرتے رہے اسی اثنا میں اذان ہوئی اور مسجد میں عصر ادا کرنے کے لیے داخل بعد نماز عصر مولانا جعفر ندوی سلمہ اللہ نے ہمیں والہانہ انداز مصافحہ معانقہ سے استقبال کیا اور سیدھے جامع شمس العلوم کے مہمان خانے میں ہماری نمکین چائے سے تواضع کی ۔ اگر چہ تھکان محسوس ہو رہی تھی تاہم "مسکن انورشاہ کشمیری " کی زیارت کا شوق دل میں موجزن تھا لہذا مولانا سے وہاں جانے کی خواہش کا اظہار کیا مولانا نے قاری سلیم صاحب کو ہمارے ساتھ کر دیا اور ہم انتہائی تھکاوٹ کے باوجود مسکن انور کی طرف روانہ ہوئے ۔ شعر
قدم ہے راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہو جانا
بیچ میں ڈاکٹر مفتی ظہور صاحب جو کہ الاتقان اکیڈمی کے ناظم بھی ہیں رفیق سفر بن گے اور ہماری گاڑی وادی لولاب کی پر سکون وادی میں مسکن انور کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ دوران سفر علمی گفتگو بھی ہوتی رہی یہاں تک کہ ہم مسکن انور پر پہنچے ۔ یہ ایک پر سکون بستی ہے ۔ انور شاہ صاحب کے والد محترم مولانا معظم شاہ صاحب کی تربت پر ایصال ثواب کیا اوروہیں ان کی اہلیہ اور اس کے تین فرزندوں مولانا عبد اللہ ،مولانا سیف اللہ اور مولانا سلیمان شاہ کی لحدیں گویا بزبان حال ہم سے کہہ رہی تھیں کہ ہماری تربتوں کی زیارت کے لیے آپ کو جس چیز نے لایا وہ نسبت علم ہے ۔ ڈاکٹر ظہورصاحب نے فرمایا کہ کہا جاتا ہے کہ علامہ انور شاہ صاحب کے ایک برادر سلیمان شاہ رحمہ اللہ جو اس مقبرے میں مدفون ہے اتنے ذہین تھے کہ اگرکشمیر سے باہر رہے ہوتے تو علامہ سے زیادہ مشہور ہوئے ہوتے ۔ ہائے کشمیر کی اس وادی میں کتنے علامہ گمنامی کی نظر ہوگئے۔
ہماری موت کا باعث تھی ایک گمنامی
سو ہر زبان پہ کتبے کا ذکر چلتا ہے
وہاں ایک چشمہ ہے جو چشمہ انور سے موسوم ہے اس کا پانی کافی میٹھا ،صاف وشفاف اور رات میں روشنی کی وجہ سے چمک رہا تھا ۔ جو پیا تو علامہ کی نظم کا یہ شعر یاد آیا
پاني ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سيماب
مرغان سحر تيري فضاؤں ميں ہيں بيتاب
اے وادي لولاب
بہر حال واپسی پر مفتی ظہور صاحب نے اپنے دولت کدہ پر نمکین چائے لینےکی پشکش کی ۔طبیعت میں کچھ غنودگی سی تھی ،چائے گویا تمام ساتھیوں کی دل کی آرزو تھی ۔ مفتی صاحب کی اہلیہ نے اخروٹ کی گریوں کو چائے میں پکا کر کمال کی چائے تیار رکھی ہوئی تھی ۔ چائے سے طبیعت میں یک گونا فرحت محسوس ہوئی اور واپس مرشدین کی طرف رات کی تاریکی میں لوٹے۔ یہاں مولانا جعفر صاحب چشم براہ تھے ۔شام کا کھانا پیش کیا گیا ۔ عشاء کی نماز ہوئی ۔اور تقریبا رات کی دس بجے میں حضرت پیر صاحب کے حجرے میں بغرض ملاقات گیا ۔ انہوں نے جب مسکراہٹ سے استقبال کیا تو یہ شعر یاد آیا (شعر)
دل میں طوفان ہو گیا برپا
تم نے جب مسکرا کے دیکھ لیا
دیر گیے تک کمرے میں اظہار خیال ہوتا رہا اور رات کی بارہ بجے، میں مہمان خانے کی طرف بغرض آرام نکلا ۔ جامعہ کا مہمان خانہ شاندار ہے ۔مہمانوں کی سہولت کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ بہر حال صبح کی نماز مرشدین میں ایک طالب علم کی امامت میں ادا کی ۔ان کی قرات سے"ورتل القرآن ترتیلا "کی گویا عملی تفسیر ہو رہی تھی ۔اللہ ان کے لحن میں مزید اِضافہ فرمائے ۔ نماز کے بعد برادر یونس نے چل قدمی کی خواہش ظاہر کی لہذا مین مارکیٹ تک مارننگ واک ہوا اور اس کے بعد چائے۔چائے میں حضرت مفتی ظہور صاحب اور مفتی اعجاز صاحب سے دینی گفتگو بھی ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ 9 بجنے کو تھے کہ ہم مہمانوں کے استقبال کے لیے باہر صحن میں نکلے ۔ ناروا و اور سرینگر کے مہمانوں سے رابطے میں رہے ۔طرفین کے مہان کپوارہ کی طرف آرہے تھے۔کچھ ہی دیر بعد نارواو کے مہمان ایک سکارپیو میں وارد ہوئے۔ اس میں والد محترم آسی صاحب تھے ۔انتہائی ضعف کے باوجودبھی انکا علمی مجالس میں شرکت کرنا ہم کو یک گونہ حوصلہ فراہم کرتاہے۔ یہ علمی مجلس ایک فالج زدہ انسان کے تحرک کا نتیجہ تھا ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کا سایہ ہمارے اوپر تا دیر قائم رہے ۔ ادارے کے بیشتر اساتذہ استقبال کے لیے باہر نکلے اور مہمانوں کو دفتر اہتمام میں بٹھایا ۔ شمس ا لعلوم کا دفتر اہتمام نہایت ہی شاندار ہے ۔ اس کے کچھ دیر بعد سرینگر سے بالترتیب ڈاکٹر شکیل صاحب ، پروفیسر مظفر ندوی دامت فیوضہم اور مولانا غلام محمد پرے صاحب مد ظلہ العالی وارد ہوئے ان کا استقبال بھی نہایت ہی شاندار طریقے سے کیا گیا اور اس طرح دفتر اہتمام میں غیر رسمی علمی گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا جو ٹھیک گیارہ بجے تک چلتا رہا ۔
ٹھیک گیارہ بجے مولانا جعفر ندوی صاحب سلمہ للہ نے تمام مہمانوں سے علی میاں ہال میں پروگرام کے لیے مدعو کیا ۔ سارے مہمان چوتھی منزل پر قائم علی میاں ہال کی طرف سیڑھیوں کے ذریعے سے گیے لیکن والد محترم کے لیے مہتمم موصوف نے لفٹ آن کیا اور بذریعہ لفٹ آسی صاحب کوپروگرام ہال تک پہنچایا گیا ۔ وادی میں، میں نے یہ پہلا مدرسہ دیکھا ہے جہان لفٹ لگا ہوا ہے اور ایسا مستقل شاندار آدیٹوریم ۔ اس آڈیٹوریم میں جدید سہولیات کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔پروگرام ٹھیک گیارہ بجے شروع ہوا ۔نظامت کے فرائض مولانا جعفر ندوی سلمہ اللہ نے انجام دیے انہون اس مجلس میں بولنے والے تمام مہمانوں کا تعارف اپنے مخصوص انداز میں کیا۔ تلاوت ،نعت اور ترانہ ندوہ کے بعدآسی صاحب نے ضعف کی وجہ سے اپنا خطبہ استقبالیہ پڑھ کر سنایا اس میں کشمیر میں علم العقائد کی ہلکی پھلکی تاریخ اور کشمیر میں اس حوالے سے کیا کام ہوا ہے پر بھی روشنی ڈالی گئی ۔اور ایک خواہش کا اظہار کیا گیا کہ "وادی میں ایک ایسی لائبریری کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں صرف اور صرف کشمیر کے مصنفین کی کتابیں جمع کی جائیں تاکہ کشمیر پر تحقیق کرنے والے محققین کے لیے تحقیق کرنا آسان ہوجائے۔ اس کے بعد محترم ڈاکٹر شکیل صاحب نے کتاب پر ایک طویل تبصرہ پیش کیا۔ اس تبصرے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کتاب کو کتنی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے ۔ عربی زبان کے نامور شاعر متنبی کے ایک شعر کا مصرع ہے:’’ وخیر جلیس في الزمان کتاب‘‘ کہ زمانہ میں بہترین ہم نشین کتاب ہے۔موصوف وادی کے ان دانشوروں میں سے ہیں جنہوں نے اپنا ہم جلیس بس کتاب ہی کو بنایا ہے ۔ اس کے بعد مولانا غلام محمد پرے صاحب نے علم العقائد کی اہمیت اور ہماری ذمہ داری کے عنوان کے تحت اپنا مقالہ پیش کیا ۔ ان کا مقالہ نہایت ہی شاندار تھا ۔ مولانا صاحب کے گھر میں ایک ضخیم لائبریری ہے ۔انہوں نے گویا اپنے گھر کو کتابوں سے سجایا ۔ اپنے گھر کو کتابوں سے سجانا مسلمانوں کا طریقہ رہا ہے ۔اس بات کو مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی صاحب رحمہ اللہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ
’’مسلمانوں نے کتب اور کتب خانے سے تطہیرِ قلب ونظر اور تزکیۂ ذہن وفکر کے علاوہ آرائشِ مکین ومکان کا بھی کام لیا تھا ۔‘‘ان کے اس فکر انگیز مقالے کے بعد مجلس کے مہمان خصوصی حضرت ڈاکٹر مظفر ندوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا خصوصی خطاب علم العقائد کی فنی تاریخ پر ہوا ۔ یہ نہایت جامع اور علمی نوعیت کا تھا ۔ہم اس کو تحریر میں لانے کی کوشش کریں گے ۔ تاکہ تاریخ کے پنوں میں محفوظ رہے ۔ آخر پر رسم رونمائی ہوئی اور پھر میں نے کلمات تشکر پیش کیے اور اس کے یہ پر سکون علمی مجلس مفتی نذیر صاحب کی پر اثر دعا پر اختتام کو پہنچی ۔ بعد میں نماز ہوئی اور نماز ظہر کے بعد لذیذ ظہرانہ اور پھر تمام مہمان خوشی خوشی اپنے گھروں کو روانہ ہوئے ۔ اللہ اس مجلس کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین
Views : 185