لکل فن الرجال ایک عربی مقولہ ہے معنی اس کے یہ ہیں کہ ہر فن کے اپنے ماہر ہوتے ہیں ۔ کھڑکی ہرگز معمار نہں بنا سکتا نہ یہ کام معمارکو دیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح فزیشن کو جراحت کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ کام احسن طریقے سے جراح یعنی سرجن ہی کرسکتا ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ شریعت محمدیہ علیہ السلام میں نافذ العمل ہے۔ یہاں پر بھی مختلف امور نبھانے کے لیے تخصص کو ملحوظ نظر رکھا جاتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لیکر آج تک اسی اصول پر عمل ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہنا چاہیے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کئی صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین جو زہد میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے انہوں نے انتظامی معاملات میں حصہ لینے سے انکار کیا۔ کیونکہ وہ سمجھتےتھے کہ شاید وہ اس چیز کے ساتھ زیادہ انصاف نہ کر سکیں ۔ صحابہ کے بعدجب ہم تابعین فقہاء کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ایسے بہت سارے فقہاء ہم کو ملتے ہیں جنہوں نے فتویٰ سازی کا عمل تو بخوبی نبھایا لیکن قضا سے اپنے آپ کو بہت دور رکھا ۔ یہاں پر تفصیل کی گنجائش نہیں ورنہ ہم چند ایک واقعات کو درج کرتے۔ بہرحال مشاہدہ میں آیا ہے کہ امت مسلمہ کی حالت روز بہ روز اس لیے خراب ہوتی چلی جا رہی ہے کہ د یںی اور دنیاوی معاملات میں " کار نجار بدست گلکار"والا مقولہ صادق بیٹھتانظرآرہا ہے۔ کسی شخص کی شرافت، صداقت ،فیاضی اور قوم و ملت کے تئیں مخلص ہونا اس چیز کے لیے کافی نہیں ہے کہ اسکو انتظامی اور قائدانہ صلاحیت کے بغیر کسی انتظامی مسند پر بٹھایا جائے ۔ اس امر کی تردید پر امت محمدیہ کا طرز عمل تواتر سے موجود ہے۔
شبلی نعمانی علیہ الرحمہ "لیڈروں کا قصوریا لیڈر بنانے والوں کا ؟" کے عنوان کے تحت مقالات شبلی جلد ہشتم صفحہ نمبر 188 پر رقمطراز ہے کہ۔۔۔ محسن(ہونا)اور لیڈر(ہونا) دو جدا گانہ منصب ہیں اور ان دونوں کی حیثیتیں صاف صاف الگ کر لینی چاہئیں، مثلا سر آغا خان نے یونیورسٹی کے معاملہ میں وہ کام کیا جو آج تک سات کرور مسلمانوں سے نہ ہو سکا اور غالبا کبھی نہ ہو سکتا ،انہوں نے قومی انسٹی ٹیوشن پر فیاضی کا مینہ برسا دیا ،اسی بنا پر وہ ہمارے محسن ہیں اور ہم کو ان کا احسان ماننا چاہیے ،قومی مجالس میں ان کی فیاضیوں اور کوششوں کا ترانا گانا چاہیے ۔قومی تاریخ میں ان کا نام سب سے اوپر لکھنا چاہیے ،لیکن وہ ہمارے پولیٹکل لیڈر نہیں ہیں ۔ان کی زندگی کا اکثر حصہ پولیٹکل زندگی سے الگ گذرا ہے ۔ان کو پولیٹکل لٹریچر دیکھنے کا بہت کم موقع ملا ۔انہوں نے اس فن کا مطالعہ نہیں کیا ہے ،اس کے ساتھ ان کے تعلقات اور معاملات آزادی کی اجازت نہیں دے سکتے ، اس لیے ہم کو ان کا وہ منصب قرار دینا چاہیے جو امریکہ میں راک فیلر اور کارینگی کا ہے کہ تمام امریکہ ان کی قومی فیاضیوں کا غلام ہے ۔تاہم کوئی شخص ان کو لیڈر کے خطاب سے مخاطب نہیں کر سکتا ۔لیڈری کے لیے وہ شخص درکار ہے ،جو مسٹر گوکھلے کی طرح خطاب ،جائداد ،دولت اور تمام تعلقات سے آزاد ہو ،جو پر جوش اور دلیر ہو ،اس کے ساتھ پالیٹکس کا ماہر ہو اور پولیٹکل لٹریچر کا مدتوں مطالعہ کر چکا ہو ۔اگر قوم میں ایسے شخص موجود نہیں ہیں تولیڈری کے تخت کو اور بھی چند روز خالی رکھنا اور واقعی تخت نشین کا انتظار کرنا چاہیے"۔
اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ محسن ہونا ،متقی ہونا ،شریف النفس ہونا جیسے اوصاف ایک مسلمان کا زینہ ہے تاہم قائدانہ اور انتظامی معاملات کو انجام دینے کے لیے معاملہ فہم ،زود بین،مدبر، بے باک اور منتظم ہونا جیسے اوصاف بنیادی کالیفیکیشن کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اولالذکر اوصاف سے مالا ل شخص کو ہم بہت بڑا بزرگ تو تسلیم کرسکتے ہیں لیکن منتظم نہیں ۔جبکہ ثانی الذکر اوصاف سے متصف شخص ایک اچھا منتظم ہوسکتا ہے کامل زاہد نہیں ۔ لہذا امت کی خیر اسی میں ہے کہ ہر وہ امر جو ملی حیثیت رکھتا ہو اس کے اھل کو سونپا جائے تاکہ نااہل کے ہاتھ میں امر نہ دے کر امت خسارے سے بچ جائے۔
Views : 41