مغربی فلسفہ اور فتنہ ارتداد
بحوالہ نیا طوفان اور اس کا مقابلہ ۔ ایک تبصرہ ۔
(نوٹ ۔ "نیا طوفان اور اس کا مقابلہ " مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک کتابچہ ہے جو اصل میں آپ نے دمشق کے ماہنامہ *المسلمون* عربی میں بطور افتتاحیہ مضامین شائع فرمائے تھے ۔ بعد میں اس کا اردو ترجمہ ہوا اور پھر مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنؤ نے اسے کتابچہ کے طور پر شائع فرمایا
شرعی اصطلاح میں ارتداد سے مراد ایک دین کے بجائے دوسرا دین، اور ایک عقیدے کے بجائے دوسرا عقیدہ اختیار کرنا ہے ۔
جب ہم تاریخ اسلام پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہر زمانہ میں ارتداد کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق ر۔ض کے زمانے سے لیکر آج تک یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے ۔ جب سیدنا ابوبکر صدیق ر۔ض کے زمانے میں ایسا ایک واقعہ پیش آیا تو آپ نے اپنے قوت ایمانی سے سر اٹھاتے ہی کچل ڈالا ۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی ر۔ح ایک بات کی طرح اس کتابچہ میں اشارہ فرماتے ہیں کہ آج کا ارتداد جو کہ یورپ کے لائے ہوئے فلسفہ کے زیر سایہ پروان چڑھ رہا ہے کئ اعتبار سے امت مسلمہ کے لئے بہت خطرناک امتحان ہے کہ وہ اس طوفان کا کس طرح مقابلہ کریں ۔ مولانا فرماتے ہیں کہ پہلے زمانے میں جب کوئی شخص یا قوم ارتداد کا شکار ہو جاتے تھے تو وہ ہر اعتبار سے مسلمانوں سے الگ ہو جاتے تھے ۔ مسلمانوں کی طرف سے ان کو سخت ناراضگی اور ناپسندیدگی کا مظاہرہ کرنا پرتا تھا اور اسلامی سوسائٹی سے قطع تعلق ۔
آگے نفاق اور الحاد کے عنوان سے مولانا فرماتے ہیں کہ آج جو لوگ ارتداد کا شکار ہورہے ہیں اور دین اسلام سے اپنا تعلق منقطع کرتے ہیں وہ اس پر تیار نہیں ہوتے کہ اسلامی سوسائٹی سے بھی اپنا رشتہِ کاٹ لیں اور اسی سوسائٹی میں رچ بس لیتے ہیں اور یہ وبا پھیلتا چلارہا ہے ۔ مولانا فرماتے ہیں کہ یہ ایک نرالی صورت حال ہے جس سے اسلام کی تاریخ کو کبھی سابقہ نہیں پڑا تھا ۔اور فرماتے ہیں کہ یہ وہ ارتداد ہے جو شرق اسلامی پر یورپ کی سیاسی اور تہزیبی تاخت کے پیچھے پیچھے آیا ہے۔ اور یہ سب سے عظیم ارتداد ہے جو عہد رسالت سے لے کر آج تک کی اسلامی تاریخ میں رونما ہوا ہے ۔
لادینیت کی عالمگیر اشاعت کا راز کے تحت مولانا دو اہم وجوہات بیان فرماتے ہیں کہ امت مسلمہ میں یہ صورت حال اس لئے پیش آئی
1) انیسویں صدی عیسوی میں دنیائے اسلام پر تھکاوٹ اور بڑھاپے کے آثار طاری ہونے لگے اور ایمان کے حوالے سے شدید ضعف و انحطاط کی کیفیت طاری ہوئی۔
2) مزید بر آں یہ ہوا کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے ربط نہیں رکھا گیا اور نہ ان کے ذہن کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔
مفکر اسلام نے وجوہات کے حوالے سے جو نکات رکھے ہیں اور چیزیں ہماری سوسائٹی میں بہت شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہیں ۔ نوجوانوں کو علماء کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے اور ایک گیپ پیدا ہوگئی ہے۔ علماء مدارس میں پڑھانے میں مصروف رہتے ہیں اور عصری اسلوب میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان یونیورسٹی اور کالجوں میں ۔ یہ ایک بہت بڑی خلا ہے جس سے یہ فتنے وجود میں آجاتے ہیں اور اس خلا کو پر کرنے کے لئے دونوں اطراف سے کاوشوں کی ضرورت ہے تاکہ اس کا تدارک ہو جائے اور سوسائٹی میں علماء اور دانشور حضرات کا سنگم دیکھنے کو مل جائے ۔ جب تک نا ہم ایک دوسرے کے قریب آجائیں اور آپس میں ایک دوسرے کو برداشت کریں ۔ وللہ تب تک اس طوفان کا تدارک کرنا محال معلوم ہورہا ہے ۔
بہرکیف ۔ مولانا اس پوری صورتحال کو پیش فرمانے کے بعد تدارک کے طور پر مقدس جہاد کے عنوان سے نہایت ہی قیمتی باتیں فرماتے ہیں ۔ مولانا فرماتے ہیں کہ آج کا جہاد ، وقت کا فریضہ اور عصر حاضر کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ لادینیت کی اس طوفانی موج کا مقابلہ کیا جائے ۔ اس حوالے سے آگے مولانا صاحب ر۔ح چند اہم نکات پیش فرماتے ہیں جس سے اس طوفان کا مقابلہ کیا جائے ۔ مولانا فرماتے ہیں اول درجہ میں دعوت ایمان کے لئے بے غرض داعیوں کی ضرورت ہے اور دعوت کے لئے نئے اداروں کی ضرورت ۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اس دور میں آج ایسے علمی اکادیمیز کی ضرورت ہے جو ایسا موثر اسلامی ادب پیدا کریں جو ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دوبارہ کھینچ کر اسلام کی طرف لائے ۔ جو انہیں مغرب کے ان ذہنی فلسفوں سے نکال کر اسلامی نظام کی حقانیت کو ان کے سامنے آشکارا کریں ۔
اخیر پر مولانا عصر حاضر کے اس ذہنی اور اعتقادی ارتداد کے بارے میں دو دینی متضاد گروہوں کا تذکرہ فرماتے ہیں ایک وہ جو ایسی ذہنیت کے لوگوں سے برسر جنگ ہے ، تکفیر کرتا ہے اور اس کے سائے سے بھی دور رہتا ہے اور دوسرا گروہ بالکل اس کی ضد ہے وہ ان کا برابر تعاون کرتا ہے اور ان کے مال و جاہ میں شریک رہتے ہیں۔ ان کے ذریعے سے اپنی دنیا کماتے ہیں اور ان کے دین کے حوالے سے کوئی فکر نہیں کرتے ۔ لیکن اس صورت حال میں اصلاح اور دینی انقلاب کے لئے ایک ایسے گروہ کی ضروت ہے جو سمجھے کہ یہ اونچا تعلیم یافتہ طبقہ مریض ہے لیکن علاج کے لائق اور شفایابی کے قابل اور اور پھر قرآنی اصولوں کے مطابق حکیمانہ طرزِ عمل سے دین کی دعوت لے کر ان میں جائیں اور خوب کوشش کریں ۔ اور یہی وہ گروہ ہے جو سے ہر دور میں اسلام کی خدمت بن آئی ہے ۔ اللہ ہمیں بھی قبول فرمائے ۔ آمین ۔
محمد اقبال وانی
Views : 598
Shakeel Ahmad Gatoo
It is need of the hour to strive hard for the above mentioned cause.....
2024-09-25 21:06:37