Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

دینی علوم بمقابلہ دُنیوی علوم


  • ڈاکٹر جوہر قدوسی مد ظلہ العالی
  • Sunday 18th of August 2024 02:34:14 AM

دینی علوم بمقابلہ دُنیوی علوم!

دور زوال میں علوم کی تقسیم و تفریق کرکے ملت  اسلامیہ نے وہ سب کچھ کھویا، جو آج اغیار کے پاس ہے

از ڈاکٹر جوؔہر قدوسی

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس تعلیم کو ہندوستان کے اربابِ اقتدار آج سرو شکشا ابھیان یعنی Education for all کا نام دے کر ایک انقلابی پالیسی کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں، اُس کا نقشِ اوّلین خود ہماری تاریخ کے نہاں خانوں میں ثبت ہے۔

علم حاصل کرنے کی اہمیت اسلام میں نہایت واضح ہے بلکہ انسانیت کی پوری تاریخ میں کوئی بھی مذہب علم کو اس قدر اہمیت دیتا نظر نہیں آتا، جس قدر اسلام نے اس کو اہمیت دی ہے۔ علم کی دعوت دینے، اس کا شوق دلانے، اس کی قدر و منزلت بڑھانے، اہل علم کی عزت افزائی کرنے، علم کے آداب بیان کرنے، اس کے اثرات و نتائج واضح کرنے، علم کی بے قدری اور اہلِ علم و ہدایت کی مخالفت و بے عزتی سے روکنے میں اسلام نے جو بھرپور اور واضح ہدایات پیش کی ہیں، ان کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ قرآن کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ علم کا ذکر ۸۰ مرتبہ اور علم سے نکلے ہوئے الفاظ کا ذکر ساڑھے آٹھ سو مرتبہ آیا ہے۔ قرآن حکیم کی کل ۶۶۶۶ آیات میں سے ۷۵۶ آیات ایسی ہیں، جن میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر غور و فکر، بصیرت و تدبر اور مشاہدے کی ترغیب یا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن کریم انظرو، ینظرون، تنظرون اور الناظرین جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے، جس کے معنی اہل لغت نے غور و فکر اور ’’بنظرِ غائر دیکھنا‘‘ کیا ہے۔ یہ لفظ قرآن پاک میں ۱۳۰ مرتبہ آیا ہے اور ۱۶ سے ۲۰ مرتبہ انفس و آفاق کے سیاق و سباق میں آیا ہے۔ اسی طرح عقل کے مصدر سے نکلنے والے الفاظ جیسے یعقلون، تعقلون وغیرہ ۴۹ جگہ آئے ہیں۔ فکر کے مصدر سے نکلنے والے الفاظ جیسے یتفکرون، تتفکرون وغیرہ ۱۸ جگہ آئے ہیں۔ فقہ یعنی فہم یا سمجھ کے مصدر سے نکلنے والے الفاظ ۲۱ جگہ آئے ہیں، حکمت کا لفظ ۲۰ بار آیا ہے اور برہان یعنی دلیل یا arguement کا لفظ ۷ مرتبہ آیا ہے۔

غرض علم حاصل کرنے اور عالم انسانیت پر علم کی اہمیت واضح کرنے کے لیے قرآن پاک مختلف انداز و اسالیب استعمال کرکے کہیں تفکر، کہیں تذکر اور کہیں تدبر پر زور دے کر آسمانی صحائف میں اپنے لافانی اور لاثانی نقوش ثبت کرتا ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ کو لیجئے تو ہمیں علم اور علم کی اہمیت سے متعلق پورے پورے باب ملتے ہیں۔ مثلاً صحیح بخاری میں وحی اور ایمان کے ابواب کے فوراً بعد علم کا باب شروع ہو جاتا ہے، جس میں ۸۶ مرفوع حدیثیں اور صحابہ و تابعین کی ۲۲ روایتیں موجود ہیں۔ اسی طرح موطا امام مالک اور صحاح ستّہ کی دیگر کتابوں مسلم، ترمذی، ابودائود، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی علم سے متعلق الگ الگ اور مفصل ابواب شامل ہیں، جن میں علم سے متعلق احادیث کی تعداد بلاشبہ سینکڑوں میں پہنچ جاتی ہے۔
قرآن اور احادیث میں علم کی اسی بے پایاں اہمیت و افادیت کی بناء پر بہت سے اسلاف علم کو اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے والی بہترین نفلی عبادت سمجھتے تھے۔ مثلاً حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: علم سیکھنا نفلی نماز و دعا ہے۔ حضرت ابودرداء کا قول ہے: ایک گھڑی علم کا مذاکرہ کرنا ایک رات کے قیام سے بہتر ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: رات کے کچھ حصہ میں علم پر تبادلۂ خیال مجھے نفلی نمازیں پڑھنے سے زیادہ پسند ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کا قول ہے: میں ایک گھڑی بیٹھ کر دین میں سمجھ پیدا کروں، یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ ایک رات صبح تک شب بیداری کروں۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں: علم کا حصول نفل نماز سے افضل ہے۔
عبادت پر علم کی فضیلت ہی کے ضمن میں جہار پر بھی علم کی فضیلت آجاتی ہے، جب کہ جہاد اسلام کی بلند ترین چوٹی ہے، جس کی فضیلت قرآن و احادیث میں واضح ہے۔ یہاں پر صرف ایک قول نقل کرنے پر اکتفا کریں گے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جو علم و ہدایت کے روشن چراغوں میں شمار ہوتے ہیں، فرماتے ہیں: اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے، وہ قیامت کے دن علماء کی قدر و منزلت دیکھ کر اس کی تمنا کریں گے کہ کاش اللہ تعالیٰ انہیں علماء کی صف میں اٹھاتا‘‘۔
علم حاصل کرنے کی اہمیت، افادیت اور فضیلت قرآن و سنت اور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور بزرگانِ دین سے اس قدر واضح ہونے کے باوجود افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امتِ مسلمہ صدیوں سے اس کو نظر انداز کرتی چلی آرہی ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ  جتنا مسلمانوں نے علم کو نظر انداز کیا ہے، اتنا کسی اور قوم نے نہیں کیا۔ دینی علوم کا بھی یہی حال ہے اور دُنیوی علوم کا بھی۔ آج پوری دنیا پر نظر ڈالیے یا برصغیر پاک و ہند سے متعلق اعداد و شمار دکو دیکھئے، تعلیم کے میدان میں، سائنس کے میدان میں، ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں کا گراف سب سے نیچے نظر آئے گا۔
علم کو ایک زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں عقیدے کی طرح مقدس مقام حاصل تھا اور معلم سے لے کر طالب علموں تک سبھی پر تقویٰ اور تزکیہ کے ساتھ یہ احساس غالب تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ کی راہ میں ایک مقدس فرض کی طرح دل کی گہرائیوں سے کر رہے ہیں۔ استاد اس لیے علم حاصل کرتا تھا کہ وہ ایک فرض تھا اور پھر فرض سمجھ کر ہی وہ علم کو دوسرے لوگوں تک پہنچاتا تھا اور طالب علم اسی طرح علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا، جیسے نماز کے لیے مسجد میں جانے کی۔ لیکن افسوس یہ ساری صحت مند روایتیں اور قدریں مسلمانوں سے رخصت ہو چکی ہیں۔ دورِ زوال میں مسلمانوں نے علم کو دو خانوں میں بانٹ کے رکھ دیا۔ دینی علم او ردنیوی علم یا شرعی علم اور غیر شرعی علم۔ حالانکہ اسلام میں دین اور دنیا کی کوئی تقسیم نہیں ہے اور جب اسلام دین اور دنیا کی تفریق کا قائل نہیں تو پھر دینی و دنیوی علوم کی تقسیم کا کون سا جواز ہے؟ قرآن کریم میں دین اور دنیا کا لفظ ایک دوسرے کی ضد کے طور پراستعمال نہیں ہوا ہے بلکہ قرآنی تصور حیات میں تو دنیا اور آخرت کے الفاظ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ متاعِ حیاتِ دنیا کی فناکاریوں کے باوجود اسے حصولِ آخرت کا ذریعہ بتایا گیا ہے اور انسان کو اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ وہ دنیا میں اپنے حصے کو نہ بھولے۔
پوری تاریخِ اسلامی میں ایسے بے شمار اقوال، افعال اور واقعات موجود ہیں، جن کی بنیاد پر یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اسلام جس علم کے حصول پر زور دیتا ہے، اُس میں دینی اور دُنیوی کی کوئی تفریق نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ’’الفوز الکبیر فی اصول التفسیر‘‘ میں علوم القرآن کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے، جو یوں ہیں: (۱) علم احکام (۲) علم مناظرہ (۳) علم آلاء اللہ (۴) علم ایام اللہ (۵) علم آخرت۔ یہ ایک اصولی اور فلسفیانہ تقسیم ہے اور اس میں علم ’’آلاء اللہ‘‘ کو موجودہ زمانے کی اصطلاح میں علم کائنات یا سائنس سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم میں آج سے سوا چودہ سو برس قبل سورہ حٰمٓ سجدہ (آیت ۵۳) میں جو اعلان کیا گیا تھا کہ ’’ہم عنقریب آفاق اور انفس میں ایسی نشانیاں دکھائیں گے جن سے یہ کھل جائے کہ یہ سراسر حق ہے‘‘۔
تو اس آیت میں در حقیقت اُس انقلاب کی طرف اشارہ ہے جسے عہدِ حاضر میں ’’سائنسی انقلاب‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اب تک درجنوں ایسی کتابیں انگریزی اور اُردو میں تصنیف کی گئی ہیں جن میں قرآن پاک کے جدید سائنسی انکشافات اور عصرِ حاضر میں علوم کی مختلف اقسام مثلاً فزیکس، کمیسٹری، بایولوجی، فزیالوجی، کاسمولوجی، ایمبرائیلوجی، ایسٹرالوجی وغیرہ وغیرہ سے متعلق قرآن حکیم کے ابدی اور ازلی حقائق کا نئے تناظر میں تجزیہ کیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جس دین کے بارے میں ہمارا کامل یقین ہے کہ اس میں دنیا بھر کے مسائل کا حل موجود ہے، اُس کی تعلیمات کی روشنی میں ہم کیسے اور کس طرح جدید ترین سائنسی و تکنیکی مسائل کا حل تب تک نکال سکتے ہیں، جب تک ہمارے علماء جدید ترین علوم سے واقف نہ ہوں۔ اصحاب فقہ اور اصحابِ افتاء کی مجلسوں میں اکثر اب تک یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ نئے مسائل کی تفہیم و تشریح اور اس پر کوئی شرعی حکم لگانے کے لیے پہلے تو ایسے ماہرینِ فن کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جو اس خاص مسئلہ کے ماہر ہوں۔ پھر صاحبِ فن کی زبانی مسئلہ کی نوعیت و ماہیت کو سمجھنے کے بعد اصحابِ فقہ اس بارے میں جائز و ناجائز اور حلال و حرام کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انٹرنیٹ اور ای میل کے استعمال کے سلسلے میں جب علماء سے اس کے جواز کا فتویٰ پوچھا گیا تو اس بارے میں اہل علم فقہاء و مجتہدین کی ایک مجلس منعقد کی گئی۔ اب چونکہ علماء ان پیچیدہ تیکنیکی آلات کے نظامِ کار سے واقف نہیں تھے، اس لیے انہوں نے ایک ماہرِ فن کی خدمات حاصل کیں۔ چند خطبات کی روشنی میں علماء نے انٹرنیٹ اور ای میل کے بارے کوئی رائے قائم کی اور پھر جیسا کہ عموماً ہوتا آیا ہے، اس کے جواز اور عدم جواز پر وہ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جب مائیکروفون پر اذان کا مسئلہ علماء کے سامنے بہت پہلے آیا تھا تو یہ جاننے کے لیے کہ مائیکروفون میں آواز کی حقیقت کیا ہے یعنی کیا وہ اصل آواز ہے یا اس کا عکس، اُس وقت کے علماء نے سائنس جاننے والے کسی مسلمان کی نایابی کے سبب ایک سائنس ٹیچر ماسٹر سیتا رام سے اکتسابِ فیض کیا اور ماسٹر سیتا رام نے مائیکرو فون میں آواز کی حقیقت بیان کی تو اصحابِ فقہ نے اسی کی روشنی میں فتویٰ صادر کیا۔
یہ ایک نہایت افسوسناک بات ہے، جس کا مظاہرہ آج بھی نِت نئے اور پیچیدہ قسم کے سائنسی آلات و ایجادات کے استعمال سے متعلق شرعی جوازیت تلاش کرنے کے وقت ہوتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم ایسے علماء اور مفتی تیار کریں جو دینی علوم میں گہری دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید ترین سائنسی علوم کے ماہر بھی ہوں، تو روئے زمین پر انسانوں کو درپیش کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں رہ سکتا، جس کا کامل و اکمل حل کتاب و سنت کی روشنی میں نہ نکل سکے۔
عرض کرنے کا مدعا یہ ہے کہ ہمیں ایسے تعلیمی اداروں کے قیام، انصرام اور استحکام کی اشد ضرورت ہے، جو تعلیم و تعلّم اور درس و تدریس کے نظام کو کتاب و سنت کی روشنی میں نافذ العمل کرنے کے پابند ہوں۔ جو دین اور دنیا کی دینی و دُنیوی علوم کی غیر شرعی اور غیر عقلی تقسیم و تفریق کے قائل نہ ہوں، بلکہ جہاں پر ہماری معصوم نئی پود بیک وقت دینی اور دُنیوی علوم سے آراستہ ہو۔ جہاں کا بچہ یا بچی فارغ ہوکر نکلے تو ایک سائنسدان، ایک ڈاکٹر، ایک انجینئر، ایک MBA، ایک MCA، ایک آئی ٹی پروفیشنل، ایک تاجر، ایک پروفیسر، ایک ماہرِ علم اقتصادیات، ایک ماہرِ علم فلکیات وغیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ قرآن و سنت اور اسلامی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھنے والا فرد بھی ہو۔ وہ محض صاحبِ خبر نہ ہو بلکہ صاحب نظر بھی ہو۔ وہ محض صاحبِ خرد نہ ہو بلکہ صاحبِ دل بھی ہو۔ کیونکہ بقول اقبال   ؎
خِرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
ضرورت اس امر کی ہے نجی شعبے میں نئے نئے اسکول اور کالج کھولنے والے ہمارے دوست اپنے تابندہ ماضی کی جگمگ جگمگ کرنے والی روشنی کے سہارے اپنے اداروں کی آئندہ حکمتِ عملی وضع کریں اور تعلیم کے شعبے میں بھی دنیا کی رہنمائی اور قیادت کا منصب سنبھالیں۔ ہمارے پاس مضبوط اور مستحکم بنیادیں ہیں، جس تعلیم کو ہندوستان والے آج سرو شکشا ابھیان یعنی Education for all کا نام دے کر ایک انقلابی پالیسی کے طور پر متعارف کرا رہے ہیں، اُس کا نقشِ اولین خود ہماری تاریخ کے نہاں خانوں میں ثبت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اے دانشورو اور تعلیمی ماہرو! ذرا ہمارے پُر وقار خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے نظامِ تعلیم کا مطالعہ کرو جنہوں نے ’’سب کے لیے علم‘‘ Knowledge for all کا نعرہ سب سے پہلے بلند کیا تھا۔ یقین نہیں آتا تو ابونعیم کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’تاریخ اصفہان‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔
مختصر یہ کہ اپنے اسلاف کے طریقِ کار کو اپنے لیے مشعلِ راہ اور نقشۂ راہ (Road Map) بناکر ہم آج دنیا بھر کے لیے مشعل بردار Torch bearers بن سکتے ہیں۔[مضمون نگارمدیر’الحیاۃ‘ ہیں،ای میل رابطہ:mail2quddusi@gmail.com


Views : 47

Leave a Comment