" مسلمان اور علم کا محدود تصور" از ڈاکٹر غلام قادر لون پر ایک نظر
قدیم اور جدید کی دوئی بنیادی طور پر مسلمانوں کے تعلیمی منظر نامے اور مقررہ درسیات میں کبھی شامل نہیں رہی ہے اور نہ اسے ابتدائی علمی حلقوں میں اعتبار و اعتماد حاصل تھا - اس پر تو گفتگو ہوتی رہی ہے کہ علم کے کن شعبوں کو اولیت حاصل ہے اور کون ثانوی درجے کے حامل ہیں نیز اس میں بھی بحث و تمحیص کی گنجائش رہی ہے کہ کون سے امور " علم " کے دائرے میں داخل ہیں اور کون سے " فن " کے دائرے میں، لیکن اس میں قدیم اور جدید کی تقسیم موجود نہیں تھی - علم کے جملہ اطلاقات کا احترام ہماری تہذیبی اور ثقافتی شناخت میں برقرار رہا ہے - اگر ایک طرف فقہاء ، محدثین ، مفسرین ، متکلمین مسلم سماج میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے تو وہیں دوسری طرف اطباء ، حُکماء ، فلاسفہ ، ادباء ، مؤرخین ، اہلِ لغت ، سیاسی ، سماجی اور معاشی امور کے ماہرین اور وقت کے سائینسدانوں کی تعظیم و توقیر بھی کم نہیں تھی - ان کے لیے الگ الگ مدارس نہیں تھے - یہ تقریباً ایک ہی وسیع اور مُحیط نصاب کا حصہ تھے
لیکن بعد کی صدیوں میں صورت حال بدل گئی - علم کا کینوس نہایت محدود ہوگیا - علم کا اطلاق منقولات کے نسبتاً ایک قلیل درسیاتی حصے پر کیا گیا اور دوسرے علوم وفنون دنیا داری کی گود میں ڈال دیے گئے جو دنیا میں کچھ کام آئیں تو آئیں البتہ آخرت میں کسی کام کے نہیں - ہرچند فقہاء و محدثین ، متکلمین و فلاسفہ ، مفسرین و اصولیین میں استثنائی صورتیں بھی نظر آتی ہیں تاہم تاریخی صفحات پر زیادہ تر ایسے اہلِ علم ظاہر ہوتے رہے ہیں جنہوں نے قدماء کی باتوں کو دہرانے پر ہی اکتفا کیا - قدماء نے علوم کو جس سطح تک لایا تھا متاخرین اس میں کوئی قابلِ قدر اضافہ نہیں کر سکے
دورِ استعمار کے بعد تو صورت حال نازک تر ہوگئی - خالص دینی طبقوں میں " دنیوی علوم" سے تنفّر کی نفسیات پیدا ہوئی اور دینی علوم کے حاملین میں بصیرت ، زمانہ شناسی ، گہرے تفقہ اور قوتِ اجتہاد میں سخت کمی محسوس کی گئی - جدید تعلیم یافتہ طبقے نے قوم کو سخت مایوس کردیا - وہ جدید تعلیمی رجحانات کے نام پر یورپی افکار و نظریات کی دَر یُوزہ گری ، تقلید اور بلا تحقیق یورپ سے درآمد شدہ ہر بات کو تسلیم کرنے والے فرمانبردار شاگردوں کی سطح پر آگئے
پچھلے ڈیڑھ سو سال سے علماء ، دانشور ، مفکرین ، ملت کے بہی خواہاں ، دردمند دل رکھنے والے حضرات مسلسل اس موضوع پر لکھتے چلے آرہے ہیں مگر بظاہر کوئی کامیابی نظر نہیں آرہی ہے - مسئلہ جوں کا توں ہے - صورت حال میں گو کوئی خاطر خواہ تبدیلی محسوس نہیں ہورہی ہے لیکن اس صورت حال کا تماشائی بن کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے بھی کوئی حل سامنے نہیں آئے گا - اندھیرے کتنے بھی گہرے ہوں شمع بہرحال جلانی پڑے گی
ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب عرصہ سے قوم کی بیداری میں اپنی وقیع تحریروں کے ذریعے کوششیں بروئے کار لارہے ہیں اسی سلسلے میں ان کا ایک رسالہ " مسلمان اور علم کا محدود تصور" سامنے آیا ہے -
ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب ہمارے علمی ، فکری اور ادبی منظر نامے میں ایک معتبر ، کہنہ مشق ، متحرک اور سیال قلم نیز علوم کا گہرا مطالعہ رکھنے والے محقق کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں - ان کے مطالعہ اور تصنیف و تالیف کا دائرہ خاصا وسیع اور قوس قزح کی صورت متنوع رنگوں کا حامل ہے - وہ قدیم و جدید علوم کا مجمع البحرین ہیں - ضروری نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے تمام افکار و نظریات سے کلی اتفاق ہو تاہم ان کی نگارشات کا مطالعہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ وہ علم و معرفت کا بحرِ ذخار ہیں جس کی لہریں علم و تحقیق کے نادر جزیروں کو سیراب کرتی ہیں
رسالہ ہذا ہرچند ضخامت میں کم ہے بایں ہمہ یہ اپنے موضوع کا احاطہ کرتا ہے - رسالہ کے شروع میں " عہدِ عروج میں مسلمانوں کا تصورِ علم" کے عنوان سے ابتدائی صدیوں کے مسلمانوں کے علمی ، فکری اور درسی منہج کی وسعت پر مختصر گفتگو کی ہے - لکھتے ہیں:
" عہدِ عروج میں مسلمانوں کا تصورِ زندگی ارفع اور تصورِ علم وسیع تھا - ان کی بلند نگاہی ، وسیع القلبی ، رواداری ، قبر تحمل ، بلند ہمتی ، روشن خیالی ، علم دوستی اور انصاف پسندی کا شہرہ دنیا میں عام تھا - ان ہی صفات حسنہ کی بدولت وہ صدیوں تک روئے زمین کے بڑے حصے کے امین اور وارث بنے رہے
پھر انہوں نے عہدِ زوال میں مسلمانوں کے تصور علم پر بھی خامہ فرسائی کی ہے:
" زوال کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں کا تصورِ علم بدل گیا - زوال کی تاریکی جتنی بڑھتی گئی علم کا تصور بھی محدود ہوتا گیا - اب طبعیات ، کمسٹری ، فلکیات ، ارضیات ، علم الہندسہ اور دیگر علوم کو دنیاوی علوم کہا گیا جو آخرت میں کسی کام کے نہیں - چنانچہ دینی علوم اور دنیاوی علوم کے درمیان خلیج دن بہ دن بڑھتی گئی اور رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ آج مدارس اور کالج دو مخالف کناروں پر کھڑے ہیں - علماء کی نظروں میں جدید تعلیم یافتہ گروہ مبغوض اور معتوب ہے جس کا کوئی وزن نہیں ، اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کی نظر میں مدارس والے روئے زمین پر بار ہیں اور علمائے سُو ہی نے مسلمانوں کی ترقی میں روڑے اٹکائے ہیں - حقیقتِ حال کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہمارا پورا نظامِ تعلیم - قدیم و جدید - اصلاح طلب ہے " ( ص 7)
ڈاکٹر صاحب نے تفصیلاّ اس امر کی وضاحت کی ہے کہ قدیم نصاب تعلیم کو ناقابلِ تغیر و اصلاح سمجھنے کی نفسیات نے کیا کیا مسائل کھڑے کر دیے - تنگ نظری ، مسلکی محاذ آرائی ، دنیا طلبی ، جاہ پسندی ، دوسری اقوام کی مفید باتوں سے استفادہ کرنے سے تنفر کی کون کون سی شکلیں ظہور پذیر ہوئیں - معمولی معمولی باتوں پر کیسے بحث و مناظرہ کے اکھاڑے قائم ہوئے - علماء جب اپنے تنگ زاویوں میں محصور ہوگئے اور ایک ایسے نصاب پر قانع ہو کر بیٹھ گئے جو اصلاح کا محتاج تھا تو وہ " بصیر بأھل زمانه" کے مقام سے نیچے اتر آئے - پھر ان علماء میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اسلاف کے عظیم سائینسی ، علمی ، فکری سیاسی ، معاشرتی، سماجی ، معاشی کارناموں سے پہلو تہی کرکے کبھی ترجمہ قرآن کی مخالفت کی ، کبھی فوجی اصلاحات کو بدعت قرار دیا ، کبھی زمین کے گول ہونے پر سوالات اٹھائے - ان میں باہم رقابت تھی - یہ فروعات کے حل کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرتے رہے - ان کی وجہ سے امت مسلمہ میں فرقہ واریت کی نفسیات پیدا ہوئی
دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ طبقے نے بھی قوم کو بے حد مایوس کردیا - " جدید اداروں کی تاریکیاں" کے عنوان سے انہوں نے جدید دانشگاہوں کے فارغین کی علمی سطحیت ، نکمے پن ، یاوہ گوئی ، عدمِ لیاقت اور مہمل پن پر روشنی ڈالی ہے - ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ تمام تر قدامت پسندی کے باوجود قدیم نصاب کے فارغین کے پاس بہت کچھ فخر کرنے کو ہے جب کہ نئے تعلیم یافتہ حضرات کا دامن یکسر خالی ہے - ڈاکٹر صاحب نے جدید تعلیم کی وکالت کرنے والوں کے اقوال نقل کیے ہیں جن سے جدید تعلیم یافتہ طبقے سے ان کی مایوسی صاف جھلکتی ہے - انہوں نے سرسید مرحوم ، مولانا حالی ، مولانا شبلی ، شیخ محمد عبدہ اور ڈاکٹر اقبال کے خیالات اس ضمن میں درج کیے ہیں - ان خیالات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ جدید طبقہ کے ظاہری رکھ رکھاؤ ، علم و عرفان سے تہی دامنی اور سُوء فہم کی بدترین مثالوں سے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ جدید تعلیم بھی اپنی موجودہ شکل میں امت کے مرض کا تریاق نہیں ہے
" نصاب پر نظر ثانی کی ضرورت" کے عنوان سے انہوں نے قدیم اور جدید دونوں نصابوں میں تبدیلی لانے پر زور دیا ہے
رسالہ ہذا مجموعی طور پر معتدل و متوازن فکر کا حامل ہے - یہ قاری کو خود احتسابی پر ابھارتا ہے - ممکن ہے مصنف کی بعض باتوں سے اتفاق نہ ہو تاہم بنیادی باتیں انہوں نے درست کہی ہیں
میری ناچیز رائے میں مصنف کو ان علمائے کرام کے تابناک کردار پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے تھی جنہوں نے بدلتے ہوئے منظر نامے میں روحِ اسلاف کو زخمی اور دینی مآخذ میں کسی قسم کی تحریف کیے بغیر علمی اور درسی اصلاح کی کوششیں بروئے کار لائی تھیں تاکہ یہ پہلو بھی سامنے آتا - نیز مصنف نے اپنے مراجع ومصادر کا ذکر نہیں کیا ہے - اس لحاظ سے تشنگی کا احساس ابھرتا ہے
( شکیل شفائی)
Views : 50