الحاج مرحوم محمد اشرف انیم صاحب سوپوری
خدا ہر شے سے بے نیاز ہے لیکن تاریخ میں ایسے حضرات ملتے ہیں جنہوں نے ایام عیش و عشرت میں دین کی رسی کو تھاما اور وہ اللہ نے مقبول بنائے ۔ مرحوم اسی دائرہ میں آتے ہیں جنہوں نے مالداری میں فقیرانہ زندگی کو ترجیح دی ایک اچھا نام کما کر اپنے مولا کے پاس جا پہنچے ۔ خدا جنت نصیب فرمائے ۔ فرمایا گیا ہے" نعم الامیر علی باب الفقیر "یعنی مالدار ہی کیوں نہ ہو اگر فقیروں کے ساتھ گھل مل جائےتو یہ مالداری عین دین بن جاتی ہے ۔خدا کو نہ محبوب مال ہے نہ دولت ۔قرآن کا ناطق فیصلہ ہے "انتم الفقرآء واللہ غنی عن العالمین"اللہ دنیا کے بادشاہوں اور مالداروں کو فقیر گردانتا ہے لیکن علامہ اقبال رحمہ اللہ کا شعر ہے
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
کہ فقرائے اسلام دل کے اعتبار سے ایسے مستغنی تھے کہ مالدار ان فقراء کے سامنے کوئی ہدیہ پیش کرتے کرتے ڈرتے تھے ۔لہذا مرحوم موصوف کا تذکرہ ہم چند دیگر اوصاف کی بنیاد پر کرنا چاہتے ہیں جنہیں مثبت یا منفی انداز میں مالداری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ لکھا ہے کہ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ ہوا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سونے کی اشرفیاں نچھاور فرمائیں تاکہ غرباء مستفید ہو جائیں ۔ دین سے وابستہ کوئی بھی شخص نہ مالداری کی بنیاد پر جانچا جاتا ہے نہ فقر و عسرت کی بنیاد پر بلکہ ان جذبات کی بنیاد پر جن کے تحت وہ راہ حق کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔کشمیر میں چند ایسے لوگ دعوت و تبلیغ کو اللہ نے نصیب فرمائے جنہوں نے فقیری کا طریقہ اختیار کیا اور وہ کچھ کما کر اپنے رب کے پاس چلے گئے ۔موصوف بھی اسی قبیل کا ایک آدمی تھا اور کسی زمانے میں غرباء ہی دین کے معاملے میں اپنے آپ کو تھکا دیتے تھے لیکن جب چند خوش قسمت مالداروں کو بھی اللہ نے خدمت دین کے لیے قبول فرمایا تو ان کی زندگی یکسر بدل گئی ۔اور شاہانہ ٹھاٹ باٹ یکسر بھول گئے اور بزرگوں کی دسترخوان پر سوکھی روٹی کے ٹکڑوں پر گذر بسر کرنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھے۔ قصبہ سوپور کشمیر کا ایک معروف قصبہ ہے جس میں مالداروں کی بہتات ہے لیکن موصوف کی وجہ سے ان کے سامنے دین کی دعوت پیش کرنا بہت آسان بن گیا ۔اس لیے کبھی کبھی بزرگان دین طبقاتی محنت پر زور دیتے ہیں اور یہ طے بات ہے کہ "کند ہم جنس با ہم جنس پرواز " ۔ آج کے اس مقالے میں ہم کسی عام دنیا دار کا تذکرہ نہیں کرتے ہیں بلکہ ایک دین دار صاحب ثروت شخص کا تذکرہ کرتے ہے۔ لہذا دنیا دار وہ نہیں ہے جو خدا کا یا خدا کے دین کا عاشق ہو بلکہ وہ شخص جس کے لیے اس کی مالداری دین سے دوری کا سبب بنے ۔شاید اسی لیے مولانا رومی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ
چیست دنیا از خدا غافل شدن
نے قماش نقرہ و فرزند و زن
ترجمہ :د نیا دار وہ ہے جو خدا سے غافل ہو نہ کہ چاندی ،مال تجارت اور سونا وغیرہ رکھتا ہو ۔ اس کے علاؤہ صاحب اولاد اور ازدواجی تعلقات کے ساتھ زندگی گزارنے والا بھی دنیا دار نہیں شمار کیا جاسکتا ۔
آگے فرماتے ہیں
مالا را کز بہر دین باشد حمول
نعم مال صالح خواندش رسول
وہ مال جو دین کے لیے سواری کا کام دے اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صالح مال قرار دے دیا ۔
چند باتیں دین داری اور دنیا داری کے متعلق لکھنے کے بعد میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ خواہ مخواہ اسلام نے ہمیں کسی مالدار کے ساتھ نفرت رکھنے کی تعلیم نہیں دی ہے بلکہ مالداروں کو دین کے لیے مال و جان لگانے کی ترغیب دینے کے لیے اور دعوت کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے دین کے داعیوں نے ہمیشہ ابھارا ہے۔ یہ صفت دعوت و تبلیغ کے اندر ہمارے بزرگوں میں عام طور پائی جاتی تھی خصوصا کشمیر میں تشریف لانے والے منشی اللہ دتا صاحب کے ایک خلیفہ حافظ محمد یوسف صاحب ٹانڈوی رحمہ اللہ میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی جو نام کے بڑے اور دنیا کے بڑے لوگوں کو دعوت کے ساتھ جوڑنے کا ایک منفرد انداز کے مالک تھے۔ چنانچہ انہوں سوپور اور بارہمولہ کے چند متمول لوگوں کو دعوت کے ساتھ جوڑا جس میں بارمولہ کا شیخ خاندان اور سوپور کا ایک یہ تجارت پیشہ طبقہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ چنانچہ ان کی زبان کے اندر اللہ نے ایسی تاثیر رکھی تھی جو بہت کم وقت میں لوگوں کے دلوں کو موہ لیتے تھے ۔ ان کی باتیں سن کر منہ میں مٹھاس محسوس ہوتی تھی ۔ خدا نے اس صفت میں انہیں ایک منفرد انداز ودیعت کیا ہوا تھا ۔ مرحوم شاہ صاحب سے لیکر بارہمولہ کے مرحوم شیخ محمد مقبول اور شیخ محمد اقبال سبھوں کو قبول فرمایا اور دین کے لیے گدا بنانا سکھا دیا۔ اللہ حافظ صاحب کی قبر کو نور سے بھر دے ۔ اور ان کے فیوض و برکات کا بدلہ قیامت تک جاری رکھے ۔
سوپور کے اندر تبلیغ کا کوئی جاندار مرکز نہیں تھا اللہ نے مرحوم اشرف صاحب کو سوپور مرکز کی خدمت کے لیے مرحوم ولی محمد شاہ صاحب کے ساتھ شانہ بہ شانہ قبول فرمایا ۔اور تاپر پٹن کے قریب اپنے باغ میں ایک مسجد بنائی جو اب دعوتی مہمات کے لیے وقف ہے۔ اللہ اسی طرح دیگر مسلمان مالداروں کو بھی قبول فرمائے ۔ کہ دنیا ایک راہگزر ہے اور دین منزل مقصود ہے۔
جہان تک میں موصوف مرحوم کو جانتا ہوں وہ ایک نہایت ہی شریف الطبع آدمی تھے۔ بات ہمیشہ نرم لہجہ میں کرتے تھے ۔بزرگوں کا بہت اکرام کرتے تھے اور ہمہ وقت دعوتی تقاضوں پر امیر صاحب کے سامنے جھک کر رہتے تھے۔ حالیہ تبلیغی شکر رنجی کے بعد موصوف نظام الدین کے ساتھ جڑے رہے۔اور امارتی فکر کو اپنا پیشوا بنایا ۔ بالآخر موصوف تبلیغی سفر کے دوران ہی کوڈ 19 کے دوران اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ اسطرح دینی و دعوتی سفرپر ہی یہ معنوی شہادت کا جام نوش فرمایا ۔ اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔آمین
کاتب :سالک بلال