کشمیر اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پورے عالم میں مشہور ہے اور یہ خوبصورتی اس خطہئ جنت نظیر کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ اِسی خوبصورتی کے پیش نظر ایک فارسی شاعر نے کہا ہے کہ
است اگر فردوس بروئے زمین
ہمیں است و ہمیں است وہمیں است
ترجمہ:۔ اگر روئے زمین پر کہیں فردوس ہے تو یہی ہے۔یہی ہے۔یہی ہے۔
یہ تو ظاہری خوبصورتی کا حال ہے جو ایک عارضی چیز ہے،لیکن ساتھ ہی خدا نے اِسے ایک اور نعمت سے نوازا ہے، جس پر اِ س سر زمین کے باشندے جتنا شکر اللہ کا بجا لائیں اُتنا ہی کم ہے۔ اور وہ نعمت خدا تعالیٰ کے وہ نیک بندے ہیں، جو خدا کے نزدیک مطلوب ہیں۔ او ر ایسے ہی نیک بندوں کے پیشِ نظر انسان مسجودِ ملائک ٹھہرا، اگر چہ نورِ اسلام کی روشنی بہت پہلے اِس خطہئ جنتِ نظیر میں نمودار ہوچکی تھی، لیکن اسکا کا باضابطہ نزول اُس وقت ہوا جب حضرات سادات اس وادی میں خیمہ زن ہوگئے۔ یہ حضرات ایک لمبی مسافت طے کر کے سنٹرل ایشاء سے یہاں تشریف لائے اور اپنے ساتھ خدا کا ایک عظیم تحفہ بھی ہمارے لیے بشکلِ اسلام یہاں لائے۔ اسلام سے پہلے یہاں ہر کنکر ایک شنکر بن گیا تھا۔اس کے برعکس اسلام کی تعلیم صاف اور واضح تھی، جس کو یہ حضرت یہاں لائے، اور وہ تعلیم توحید و رسالت کی تھی۔ اُن کا نعرہ مبنی بر صداقت تھا یعنی ”ہر ملک مُلکِ ماست کہ مُلک خدائے ماست۔ (ترجمہ) دنیا کا ہر ملک ہمارا اپنا ملک ہے کیوں کہ یہ ہمارے خدا کا ملک ہے۔ اُن کی اخلاص بھری آواز میں اتنی مٹھاس تھی کہ کشمیری لوگوں نے اُن کو گلے لگایا۔ اور اُن کی نورانی تعلیم کو آگے بڑھانے کے لیے شیخ نور الدین کو خلافت عطا کی۔ شیخ نورالدین نے اس تعلیم کو عام کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی داؤ پر لگائی اور اپنی خصوصی تربیت میں جن لوگوں کو لیا اُن کو ریشیانِ کشمیر کے نام سے پُکارا جاتا ہے۔یہ لوگ اسلام کے اِس قدرشیدائی تھے کہ انہوں نے اپنی ہر پیاری چیز کو قربان کیا اور دن رات تصوف کی شکل میں اسلام کی تعلیمات کو عام کیا۔ اسی کے ساتھ ایک اور طبقہ بھی بطور نمائندہ کے وجود میں آگیا،جن کو پیر صاحبان کے نام سے وادی کشمیر میں جانا جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنے حسب و نسب کے اعتبار سے یا تو حضرات سادات کے ساتھ خونی رشتے میں منسلک تھے یا اُن کی علمی و روحانی تربیت میں جُڑے ہوئے تھے۔ یہ ایک ذہین طبقہ تھا اور اپنی شرافت و نجابت کی وجہ سے نہایت ہی قدر ومنزلت کے مقام پر فائز تھے۔ کشمیری مسلمان ان کے گِرویدہ تھے اور یہ لوگ نہایت ہی متقیانہ اور پر ہیز گارانہ زندگی گذارتے تھے۔ یہ حضرات اپنی صورت و سیرت کے اعتبار سے سچے پکے مسلمان تھے اور نہایت ہی سادگی کے ساتھ زندگی گذارتے تھے۔ ان کی عورتیں پردے میں رہتی تھیں اور یہی پیر صاحبان کشمیری مسلمانوں کے دینی رہبر و قائد تھے۔ اِس طبقے کے چند برگذیدہ خاندان ضلع کپواڑہ میں بھی رہائش پزیر تھے۔ ان ہی میں سے ایک خوش نصیب خاندا ن وہ ہے،جس میں حضرت پیر شمس الدین صاحب پیدا ہوئے ان کاسلسلہ نسب بابامسعود نروری کے ساتھ ملتا ہے اور بابا مسعود نروری ؒ سرینگر شہر کے شریفوں اور بڑے امیروں میں سے تھے۔ملک التجار لقب تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شمسِ عراقی کا شہرہ ہر طرف ہورہا تھا۔ اس شخص کا قصہیہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو بابا اسماعیل کا مرید اور خلیفہ کہہ کر مذہب شیعہ کوفروغ دے رہا تھا لوگ شیعہ مذہب کی آمد سے بڑے تذبذب میں تھے۔
بابا مسعود نروریؒ
انوار الباری ؒ میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ مسعود نروری ؒ کے بزرگوں کا اصل وطن بغداد تھا۔ وہاں سے ملتان آئے۔ لاہور منتقل ہوئے، پھر کشمیر میں سکونت اختیار کی۔ جس طرح کشمیر کے جلیل القدر فرزند حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کا شجرہ نسب شیخ عبداللہ بن شیخ مسعود نروری تک پہنچ کر بابا مسعود نروری ؒ کے ساتھ ملتا ہے۔ اسی طرح حضرت پیر شمس الدین ؒ کا شجرہ نسب بھی شیخ عبداللہ بن شیخ مسعود نروری ؒ تک پہنچ کر بابا مسعود نروری ؒ کے ساتھ ملتا ہے۔ ان دونوں شاخوں میں عالی قدر روحانی پیشوا پیدا ہوئے ہیں اور مجھے معلوم ہوا کہ جس دن حضرت انور شاہ صاحب ؒ اس دنیائے فانی سے تشریف لے چلے اُسی دن حضرت پیر شمس الدین لولابی ؒپیدا ہوئے گو یا تکوینی اعتبار سے اللہ نے تعالی نے وادی ئ لولاب کو حضرت انور شاہ صاحب ؒ کے بدلے پیر شمس الدین صاحب کو عنایت فرمایا۔ حضرت انور شاہ کشمیری ؒ نے اگر چہ چند ناگزیر حالات کی بناپر کشمیر سے ہجرت کی اور مدینہ طیبہ میں سکونت کی غرض سے کشمیرسے چلدئے تھے، لیکن آپ کے شفیق استاد حضرت مولانا محمود الحسن صاحب ؒنے آ پ کو روکا اور دارالعلوم دیوبند میں پڑھانے پر مامور کیا۔ یہاں تک کہ آپ کو صدر مدرس کے منصب پر بھی فائز کیا گیا۔ آپ کے درس حدیث کی شان کچھ عجیب و غریب طرح کی ہوتی تھی اور اعلیٰ صلاحیت کے شائقین علم آپ کے درس میں شریک ہونے کو اپنے لیے بڑی فخر کی بات سمجھتے تھے۔حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ مولاناانور شاہ صاحب ؒ کا درس علمی مضامین سے پُر ہوتا ہے اور اگر میں چاہوں تواُن کے ایک جملے پر ایک کتاب لکھ سکتا ہوں۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ جب حضرت شاہ صاحب میرے سامنے ہوتے ہیں تو میرا دل اُن کا علمی دباؤ محسوس کرتا ہے۔
پیدا ئش:
حضرت پیر شمس الدین صاحب3 صفر المظفر1352ہجری مطابق 27مئی 1933 عیسوی بروز جمعرات پیدا ہوئے اور 7 ربیع الثانی 1443ہجری مطابق 12نومبر 2021 عیسوی بروز جمعہ اس دنیائے فانی سے تشریف لے چلے۔
تعلیم
ابتدائی تعلیم اپنے برادر اکبرمرحوم عبدالعزیز صاحب ؒسے حاصل کی۔ فارسی کی بڑی کتابیں گلستان، بوستان، زلیخا جامی حضرت پیر شاہ صاحب ساکنہ سونہ نار سے پڑھیں۔ اسی طرح عربی کی معروف کتب شرح مشکوۃ، شرح وقایہ، نوراالایضاح، مالا بد منہ، ھدایہ، قدوری اپنے برادر اکبر پیر عبدالعزیز صاحب ؒسے پڑھیں۔
روحانی تربیت
روحانی تربیت اپنے دادا پیر عبدالسلام صاحب سے پائی۔ پھر میر واعظ خاندان کے ایک بزرگ پیر عتیق اللہ صاحب کی طرف رجوع کیا۔ اس کے بعد سید میرک شاہ صاحب کاشانی ؒکا انتخاب کیا جو کشمیرکے ایک معروف صوفی بزرگ تھے۔اُن کی وفات کے بعد پیر غلام محمد المعروف معمہ صاحبؒ کی طرف رجوع کیا۔یہاں تک کہ قدرت نے منشی اللہ دتا صاحبؒ کو کشمیر پہنچایا۔ آپ موجودہ دعوت و تبلیغ کے ایک مشہور داعی تھے اور آپ کو حضرت مولانا الیاس صاحبؒ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒ کاندھلوی نے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں کشمیر بھیج دیا تھا۔ اپنے دعوتی سفر کے دوران قدرت نے آپ دونوں کو ملایا۔ منشی صاحب ؒکو مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی طرف سے خلافت عنایت ہوئی تھی اور آپ نے اپنی طرف سے کشمیر کے دوبزرگوں کو خلافت سے نوازا۔ایک بزرگ اُن میں سے حضرت پیر شمس الدین صاحب ؒتھے اور دوسرے بزرگ سوپور کے ولی محمد شاہ صاحبؒ تھے۔ اپنے مرشد کی نگاہوں میں آپکی کیا قدر ومنزلت تھی اس بات کا اظہا ر حضرت منشی صاحبؒ کے اس قول سے ہوتی ہے کہ کشمیر پہنچ کر مجھے اپنا مطلوب مل گیا۔ آپ نے پیر صاحبؒ اور ولی محمد شاہ صاحبؒ کی خلافت کا اعلان بارہمولہ کے تاشقند اڈہ کے ایک دعوتی اجتماع میں کیا اور فرمایا کہ جو لوگ مجھ سے بیعت ہونا چاہتے ہیں وہ اب میرے یہاں سے جانے کے بعد پیر شمس الدین صاحبؒ اور عبدالولی شاہ صاحبؒ کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ آپ کے پاس آپ کے مرشد کے چند تبرکات بھی ہیں جو انہوں نے آپ کو از خوز عنایت فرمائے۔۔
مشغلہ ظاہری
آپ نے ابتداء میں ظاہری مشغلہ کے طور پر دکانداری کا کام اپنے ہاتھ میں لیا، لیکن اس کے بعد1960 عیسوی سے جامع مسجد سوگام میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔ اپنے دعوتی سفر کے دوران منشی صاحبؒ نے جب وادی لولاب کا سفر کیا تو آپ اُس وقت اسی مسجد میں بحیثیت امام جامع مسجد اپنی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔چونکہ ضلع کپوارہ کا صدر مقام قصبہ کپوارہ ہی تھا لہٰذا آپ نے اس دعوتی کام کے سلسلے میں اسی قصبہ کی جامع مسجد کو کام کا مرکز بنانے کی خواہش کی اور کئی سال تک یہی مسجد کام کا مرکز بھی بنی رہی، لیکن دعوتی کام کے لیے جس یکسوئی،مرو ت و معاونت کی ضرورت تھی وہ آپ کو وہاں پر حاصل نہ ہوسکی۔ لہٰذا آپ نے کسی عملی ٹکراؤ کے بغیر ہی 1997 عیسوی سے 1998 عیسوی تک جامع مسجد دودھوان کا انتخاب کیا۔ دودھوان کے قریب ہی ایک بزرگ خوشحا ل صاحب مدفون ہیں۔ اس مقا م کو خوشحال صاحب کہتے ہیں۔وہاں ایک بڑا پتھر بھی پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس جگہ کو (ہل پل) (پتھر کا کشمیر ی نام)بھی کہتے تھے۔ یہ جگہ موجودہ مرکز دعوت و تبلیغ مسجد مرشدین کے قریب ہی واقع ہے۔ یہاں حضرت پیر شمس الدین صاحب نے ایک بڑے دعوتی مرکز کی حیثیت سے مسجد مرشدین کی سنگ بنیاد ڈالی۔ سنگ بنیاد کی تاریخ 19نومبر1998 عیسوی ہے۔
کپواڑہ کا تاریخی تبلیغی اجتماع
1985 عیسوی میں جامع مسجد کپوارہ کے صحن میں ایک بڑا تبلیغی اجتماع منعقد ہوا۔ اُس وقت دعوتی کام کا مرکز بھی یہی جامع مسجد تھی۔ یہ ایک دلکش اجتماع تھا۔ اس میں بستی نظام الدین سے درج ذیل بزرگ تشریف لائے۔ میاں سید بھوپالی، حافظ محمد یوسف صاحب ٹانڈوی ؒ، میاں جی محراب صاحبؒ، بھائی فاروق صاحب بنگلور۔اس اجتماع کے محرک ورُوحِ رواں بھی حضرت پیر صاحب ؒ ہی تھے۔
مدارس اسلامیہ کے ساتھ آپ کا تعلق
سرینگر کے دارالعلوم قاسمیہ کے پہلے سرپرست مولانا انظر شاہ صاحب ؒتھے۔ جب وہ رحمت ِ حق ہوگئے تو آپ کو سال ۸۰۰۲ء میں دارالعلوم قاسمیہ کا سرپرست متعین کیا گیا۔ دارالعلوم سوپور کی نگرانی کی ذمہ داری بھی آپ نے دو سال سنبھالی۔ مرکزی دارالعلوم دودھوان کپواڑہ کی سرپرستی کے علاوہ تعمیرات و تعلیم وغیرہ کی ذمہ داری بھی سال ۲۷۹۱ء سے آپ نے سنبھالی۔ اس طرح آپ ایک طرف سے دعوت و تبلیغ میں سرگرم رہے اور دوسری طرف سے مدارس اسلامیہ کوبھی اپنی شفقت و مروت سے نوازتے رہے۔
مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کے خاندان کے ساتھ تعلقات مولانا انورشاہ صاحب ؒ کا گاؤں سونہ نار دار پورہ کے قریب ہی واقع ہے۔ جہاں مولانا انور شاہ صاحب ؒ کے والد محترم مولانا معظّم صاحب ؒ سکونت پزیر تھے۔ مولانا معظّم صاحب نے مولانا محمد حسین صاحب ؒ سے اکتسابِ علم کیا جو حضرت پیر شمس الدین صاحب ؒ کے پردادا تھے۔ اور اسی کے پیشِ نظر ورنو کے علم و ادب کے عاشق نہایت ہی ادب و احترم کے ساتھ سونہ نار دار پورہ حاضری دیتے تھے۔ اور اس طرح اپنے پیش رو بزرگوں کے ساتھ اپنی انتہائی عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔ جہاں ان دونوں خاندانوں کو ایک طرف سے مسعودی ہونے کا خونی رشتہ جوڑ رہا ہے۔ تووہاں دوسری طرف تعلیم و تربیت کےباہمی رشتے میں بھی جُڑے ہوئے ہیں۔
شمس العلوم دار پورہ
اس کا پہلا نام منبع العلوم تھا اور اس کی سنگ بُنیاد1996 عیسوی میں رکھی گئی، لیکن پیر صاحب کی مسلسل سرپرستی اور نگرانی کی وجہ سے اس کا نام اب شمس العلوم دارپورہ ہے۔
مسجد مرشدین
مرکز دعوت و تبلیغ مسجد مرشدین ضلع کپواڑہ نہ صرف اب کپواڑہ کا ایک بڑا مرکز ہے، بلکہ کشمیر کے بڑے مراکز میں سے سب سے بڑا مرکز ہے۔جس کے ساتھ اب ایک اچھا خاصا اور معیاری مدرسہ بھی چل رہا ہے۔ پیر شمس الدین صاحبؒ کی نماز جنازہ بھی کے اسی دارالعلوم کے صحن میں ہزاروں لوگوں نے ادا کی اور پھر آپ کو مغرب اور عشاء کی نمازکے درمیان اسی مرکز کے ساتھ جُڑے ہوئے ایک قطعہ زمین میں پُرنم آنکھوں سے سپرد ِخاک کیا گیا، جس قطعہ زمین کو علاحدہ طورسے اپنے لیے خریداتھا۔یہ مرکز جومسجد مرشدین کے نام سے پورے ملک میں جانا جاتا ہے ایک بڑا دعوتی و روحانی مرکز ہے۔ اور دارالعلوم کی موجودگی نے اب اس کو ایک بڑا علمی مرکز بھی بنا لیا ہے۔ پیر صاحبؒ کے فرزند پیر عبدالرشید صاحب کو عملاً پیر صاحب کی زندگی ہی میں اس مرکز کی ذمہ داری سنبھالنی پڑی اور انہوں نے بہت پہلے اس اہم ضرورت کے پیش نظر اپنی سرکاری ملازمت میں ریٹائر منٹ لے لی اور وہ اب مرکز کے روح رواں ہیں۔جس وقت پیر صاحب ؒنے دعوتی مرکز کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیا اس وقت یہ مقام خوشحال صاحب خالی پڑا تھا۔لیکن اب اس کے اردگرد میں سرکاری دفاتر کا جال بچھایا گیا جس کی وجہ سے مرشدین میں نمازیوں کی کافی چہل پہل رہتی ہے۔اور دوسری طرف سے ضلع کپوارہ کے سارے بڑے بڑے دعوتی مشورے اسی مرکز میں منعقد ہوتے ہیں۔
تعلیمات
یہاں تک میں نے پیر صاحب ؒ کے حالات اور خدمات کا تذکرہ کیا اب اُن کی تعلیمات کے سلسلے میں چند گذارشات پیش کی جائیں گی۔پیر صاحب ؒ اپنا خاندانی انتساب کشمیر کے اُس طبقے سے رکھتے ہیں،جن کو کشمیر کی مذہنی قیادت کا منصب پہلے ہی سے حاصل تھا، لیکن آپ کی وسعتِ نظری کا یہ ایک زندہ ثبوت ہے کہ آپ نے کشمیر میں مولانا الیاس ؒ کی دینی دعوت کا کھلے دل سے نہ صرف استقبال کیا، بلکہ اپنے ساتھ اپنے افراد ِخانہ کو بھی اس مبارک کام میں عملاً جھونک دیا۔ آپ نے بڑے بڑے تبلیغی اسفار کئے، چلے لگائے، اللہ نے آپ کو کئی بار حج کی زیارت سے بھی بہرہ ور فرمایا۔ مرکز نظام الدین کی حاضری پابندی کے ساتھ دیتے رہے۔ کئی دفعہ بیمار پڑے۔علاج و معالجہ کی صعوبتوں سے بھی گذرنا پڑا۔لیکن آپ اس قدر مستقل مزاج تھے کہ کبھی آپ کے ماتھے پر ان آزمائشوں کی وجہ سے شکن نہ پڑے آپ ہمت و استقامت کے پہاڑ تھے۔ اجتماعات میں جب آپ پر بات کرنے کی ذمہ داری ڈالی جاتی تھی تو آپ کی زبان مبارک سے ایسے رموز و نِکات نکلتے تھے جو واقعی بزرگانِ دین کے علوم کا چربہ ہوتے تھے۔ آپ کی ذکر و فکر اور تلاوتِ قرآنِ مجید ایک مستقل عمل تھا، جس میں کبھی بھی کسی قسم کی سُستی نہیں دکھائی دیتی تھی۔آپ ہمیشہ ذکر الٰہی میں رطب السان رہتے تھے۔ نوافل کے ساتھ آپ کا شغف انتہائی درجے کا تھا نماز تہجد کے آپ دائماً پابند تھے۔ اوراد فتحیہ اور دیگر وظائف بھی آپ کے معمولات میں شامل تھے۔اور آپ اورادِ فتحیہ کا ختم بھی بوقت ضرورت ارشاد فرماتے تھے۔جس سے بیمار شفایاب ہوتے تھے۔ آپ اپنے مرشد کی طرح صبح وشام تین تسبیحات کا ورد رکھنے کی تلقین فرماتے تھے۔ آپ کو علم ِفقہ میں زبردست تفوق حاصل تھا۔ تبلیغی احباب کے ساتھ ساتھ دوسرےمکاتبِ فکر کے ساتھ تعلق رکھنے والے اصحاب آپ کے دربار میں حاضری دیتے تھے۔ اور مستفید ہوتے تھے۔ فقہی مسائل میں آپ فقہ حنفی پر عمل پیراتھے۔ اپنے عزیزوں سے بیان کرواتے تھے۔ مجھ ناچیز کے ساتھ خصوصی شفقت کا معاملہ فرماتے تھے ایک دفعہ فرمایا آپ دونوں یعنی پیر رشید صاحب اور احقر بھائیوں کی طرح ہیں اور بھائیوں کی طرح کام کریں۔ احقر کی گذارش پر بارہا علاقہ نارواؤ تشریف لائے اور اکثر اسفار میں مرکز مرشدین کے دیگر ذمہ دار افراد کو بھی ساتھ لاتے تھے۔ علاقہ نارواؤ کے بہت سے نوجوان و بزرگ حضرات آپ کے ساتھ بیعت میں منسلک ہیں۔ اس ناچیز کو بھی حضرت جی مولاناانعام الحسن صاحبؒ کے بعد اپنی بیعت سے نوازا۔ احقر کو اورادِ فتحیہ اور تسبیحات ستہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔ تفسیر مظہری کی بڑی تعریف فرماتے تھے ایک دفعہ فرمایا کہ قاضی صاحبؒ بیہقی زماں تھے۔ اور اُن کی تفسیر فقہ حنفی کی بہترین ترجمان ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ہونے پر نہایت ہی خوشی کا اظہارفرمایا۔ جب بھی احقر مرشدین میں حاضر ہوتا تھا تو مجھ سے ضرور بیان کرواتے تھے اور خود بھی اہتمام سے اس میں موجود رہتے تھے، کیوں کہ فارسی کا ذوق غالب ہونے کی وجہ سے احقر اپنے بیان میں مولانا جلال الدین رومی ؒ کی مثنوی کے اکثر اشعار پڑھتا تھا۔ پیر صاحب چونکہ علم تصوف کے عاشق تھے لہٰذا پسندیدگی کی ایک خاص وجہ یہ فکری یگانگت بھی ہوتی تھی۔ احقر ان حضرات کے سامنے اگر چہ بیان کرنے سے ڈرتا تھا، لیکن الامر فوق الادب کے تحت بیان کرنے کے بغیر چارہ کار بھی نہیں رہتا تھا ۔
سخاوت
سخاوت آپ کا طُرہئ امتیاز تھا۔ آپ کے لنگر میں ہمیشہ ایک وسیع دستر خوان موجود رہتاتھا۔ ہر آنے والے کے مقدر میں جتنے دانے ہوتے تھے کھانے کے بغیر نہیں نکل سکتا تھا۔ مہمانوں کے لیے خصوصی کھانے کا اہتمام ہوتا تھا،لیکن خود کم خورد، کم خواب و کم گفتار کے عادی تھے۔
کشف وکرامت:
اللہ پاک اپنی قدرتِ کاملہ کی وجہ سے بزرگانِ دین کو کشف و کرامات سے نوازتا ہے۔ لیکن احقر کے نزدیک حضرت پیر صاحب ؒ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ عمر بھر سنتوں کے پابند رہے اور کبھی کوئی ایسی حرکت صادر نہیں ہوئی جو خلاف شریعت ہو۔
علماء میں آپ کا مقام
نہ صرف کشمیر بلکہ ہندوستان کے جتنے علماء بھی جماعتوں کے ساتھ یہاں تشریف لاتے تھے۔ آپ کے پاس ضرور حاضری دیتے تھے۔ آپ بھی اُن کا تہہ دل سے استقبال و احترام کرتے تھے۔ ریاست جموں و کشمیر کے علماء تو آپ کے گِرویدہ تھے،لیکن آپ اُس سے زیادہ اُن پر شفقت فرماتے تھے۔ آپ مستجاب الدعوات تھے۔ مَردوں کے علاوہ وادی کے پردہ نشین عورتیں بھی شرعی پردے اور ضوابط کی پابندی کے ساتھ متعین اوقات میں مستفید ہونے کے لیے اور دعائیں لینے کے لیے حاضر ہوتی تھیں۔ آپ ایک مہربان باپ کی طرح کسی کا دل نہ دُکھاتے تھے۔ بڑے بڑے آفیسر اور منسٹر صاحبان بھی دعا لینے کے لیے نہایت ہی عقیدت مندی کے ساتھ حاضری دیتے تھے۔ آپ بھی فرق مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ معاملہ فرماتے تھے۔
مختصر آپ پابند شریعت، رہبر طریقت، عاشقِ دعوت وتبلیغ اور ہمہ وقت ذکر وعبادت کے عادی اور سخاوت کے نمونہ تھے۔
(خدا رحمت کند این عاشقاں پاک طینت را )