*حضرت ولی محمد شاہ صاحب سوپوری ر۔ح*
آپ قصبہ سوپور کے رہنے والے ایک سن رسیدہ بزرگ ہیں۔ابھی آپ نے بڑھاپے میں قدم نہیں رکھا
تھا کہ قصبہ سوپور میں ۹۶۹۱ء میں آپکی ملاقات حافظ محمد یوسف ٹانڈوی صاحب دامت برکاتہم سے ہوئی۔ٹانڈا ہندوستان کی ریاست یو پی (U.P) میں واقع ہے۔شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے سب سے پہلا بیانخوشحال متوسوپور میں حضرت حافظ محمدیوسف صاحب کا سنا اور انہوں نے مسجد میں میری تشکیل نہیں کی۔دوسرے دن ان کا بیان خانقاہ سوپور میں تھا۔ انھوں نے مجھے وہاں آنے کی دعوت دی۔اس دن میں وہاں بھی گیا اور تیسرے روز حافظ صاحب ہمارے گھر پر تشریف لائے۔پھر ان کی فرمائش پر میں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ لیکن بعد میں منشی اللہ دتا صاحبؒ نے حافظ صاحب سے فرمایا کہ ولی محمد شاہ صاحب کومجھے دے دو یہ میری تربیت میں رہے گا۔اس کے بعد حضرت منشی اللہ دتا صاحب ؒ نے مجھے اور پیر شمس الدین صاحب کو بارہ مولہ کے تاشقند اڈہ والے اجتماع میں خلافت سے نوازا۔ فرمایا کہ اگر چہ ہمارے بزرگوں کے پیر شمس الدین صاحب کے بزرگوں کے ساتھ سابقہ تعلقات تھے لیکن ذاتی طور پر مجھے پیر شمس الدین صاحب کی معرفت حاصل نہیں تھی۔بعد میں اسی تبلیغی محنت کے دوران باہمی روابط قائم ہوئے۔فرمایا کہ پیر شمس الدین صاحب کے ذریعہ سے مجھ تک یہ بات پہنچی کہ منشی اللہ دتا صاحب ؒ کے مرشد مولانا حسین احمد مدنی ؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نے منشی اللہ دتا صاحب کو کیسے خلافت سے نوازا جب کہ منشی صاحب مُروَّجہ قسم کے مولوی وغیرہ بھی نہیں تھے۔ انہوں نے جواباًفرمایا کہ میں کیا کرتا یہ ایک خشک لکڑی تھی اس نے فوراً آگ پکڑ لی۔دائرہ تبلیغ میں آنے کے بعد حضرت ولی محمد شاہ صاحب سوپوری نے اپنے کار و بار کو محدود کر لیا اور اپنے آپ کو تبلیغ کیلئے وقف کر دیا اور حضرتناامیر احمد صاحب امیر تبلیغی جماعت جموں و کشمیر کے ساتھ اکثر اسفار میں پیش پیش رہے۔صحت کی خرابی کی وجہ سے آپ اس وقت صاحبِ فراش ہیں۔لیکن اس پیرانہ سالی میں بھی نماز،تسبیح اور تلاوت کے زبردست پابند ہیں۔آپ قصبہ سوپور میں دعوت کا کام جمانے میں بہت ہی فکر مندی کے ساتھ مصروف عمل رہے اور اپنے قریبی ساتھی محمد اشرف انیم صاحب وغیرہم کے ساتھ مسجد زکریا کو ایک سرگرم مرکز بنانے میں کامیاب ہو گئے۔اگر چہ آپ بیان وغیرہ کم فرماتے رہے لیکن اپنے قیمتی مشوروں اور حلم و دانشمندی سے اس کاز کو ہمیشہ نفع پہنچاتے رہے۔
آپ اکثر اسفار میں رہتے تھے۔قصبہ سوپور میں آپ سابقون الاوّلون حضرات میں تھے۔ آپ اپنی شرافت اور دیانت کے اعتبار سے جانے جاتے تھے۔ آپ مزاجاً کم گو تھے۔ بارہمولہ کی شب گذاری کے پابند تھے۔ویسے بھی تبلیغی اُمور اکثر بارہمولہ ہی میں طے پاتے تھے۔ آپ ذکر وفکر کے زبردست پابند تھے۔حضرت جی مولانا انعام الحسن ؒ کی تشریف آوری کے سلسلے میں جو درخواست بستی نظام الدین میں لکھی گئی۔ اکابرین نے وہ درخواست لکھنے کے سلسلے میں حضرت شاہ صاحب اور مجھ ناچیز کو اس کی ذمہ داری سونپ دی۔ البتہ اُس دن مجھے پتہ چلا کہ شاہ صاحب کس طبیعت کے مالک تھے۔یہ تو ایک مختصر کا م تھا لیکن شاہ صاحب نے موزون سے موزون تر الفاظ د عوتی درخواست کے لیے تلاش کرتے رہے اور فرمایا کہ ہم اس وقت دعوت کے قطلب الارشار کی خدمت میں درخواست پیش کر رہے ہیں اور میرا قلم اس وقت اسی لیے تھرتھرارہا ہے۔ایک سفر میں مجھے اس بات پر مجبور کیا کہ آپ اپنے بیان میں کلام شیخ العالم کو خوب بیان کریں اور یہ بھی فرمایا کہ اپنے مخصوص انداز میں یہ کام انجام دیں۔ انشاء اللہ اس کا اثر عوام پر اچھا پڑے گا۔ ہمارے علاقے کے کئی اسفارکئے اور علاقہ کے ایک دیہات میں ہم نے حضرت شاہ صاحب کے لیے گھوڑے کا انتظام کیا۔ وہاں پرا یک صاحب نے دعوت کی اور درخواست کی کہ ہماری اموات کے لیے ایصال ثواب کریں۔ شاہ صاحب نے یہ کام بھی کیا اور پھر فرمایا کہ بہت اچھا ہے لیکن آج کل کون ایصال ثواب کرتا ہے۔آپ جس دن رحمتِ حق ہوگئے توہم لوگوں کی ایک جماعت نے نارواؤ سے سوپورکا رُخ کیا اور پھر اس ناچیز نے اُن کے گھر پر ایک مفصل بیان کیا اور حضرت شاہ صاحب کی خدمات پر تفصیل کے ساتھ روشی ڈالی۔لوگوں نے اپنی انتہائی دلچسپی کا اظہار کیا۔ ایک جم غفیر نے اُن کے جنازے مین شرکت کی۔ البتہ امیر صاحب چونکہ مرکز مسجد الرشاد میں اعتکاف میں تھے لہٰذا وہ اُن کے جنازے میں شرکت نہ کر سکے۔آپ کے جسد خاکی سوپور کالج کے باہر ایک قریبی قبرستان میں سپردِخاک کیا گیا۔ آپ دن رات یا د الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ اور حضرت امیرصاحب شاہ صاحب مرحوم کی بہت قدر کرتے تھے۔ واقعی حضرت شاہ صاحب، پیر شمس الدین صاحب اور امیر صاحب کا باہمی برتاؤ اور اکرام ایک قابل دید چیز تھی۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔ رحمۃ اللہ علیہ ورحمۃ واسعۃ۔ آپ نمود و نمائش سے کوسوں دُور تھے۔ سوپور کے لوگ شاہ صاحبؒ کو نہایت ہی قدر ومنزلت کی نظروں سے دیکھتے تھے۔آپ اپنی زندگی میں ایک ایماندار تاجر تھے۔البتہ اپنے معمولات ک پابندی کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہتے تھے۔ آپ کی زندگی کا شاید ہی کوئی لمحہ بغیر ذکر و فکر کے گذرا ہو اور اکثر شب بیدار رہتے تھے۔
-----------------جاری-------------
از :الحاج غلام نبی آسی صاحب
(سرپرست ادارہ راہ نجات و
مؤسس مجلس علمی جموں و کشمیر)
کاتب : سالک بلال