Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

مرحوم الحاج غلام رسول فور وے صاحب رحمہ اللہ


  • آسی غلام نبی سرپرست ماہنامہ راہ نجات بارہمولہ
  • Thursday 28th of March 2024 05:48:49 PM

الحاج غلام رسول ریگو المعروف فور وے صاحب بارہمولہ 
جب رئیس التبلیغ مولانا محمد یوسف صاحب المعروف حضرت جی دوم نے منشی اللہ دتا صاحب کو کشمیر تبلیغی سفر پر روانہ کیا تو منشی صاحب کے ساتھ رفاقت کرنے والوں میں چند خاص اصحاب نے جو زبردست قربانی دے دی ان میں الحاج محترم غلام رسول فور وے صاحب کا نام سر فہرست ہے ۔موصوف قصبہ بارہمولہ کے رہنے والے تھے اور اپنے ذاتی کاروبار کے ساتھ ساتھ دعوتی کام کو بھی اپنا وظیفہ حیات بنایا ۔ خدا نے آپ کو خدمت کا ایک خاص سلیقہ عطا فرمایا تھا ۔آپ قصبہ بارہمولہ کے مین چوک میں اپنا ایک ہوٹل سجائے ہوئے تھے جہاں پر اکثر دعوتی لوگوں کا آنا جانا روز کا معمول تھااور موصوف کے اس ہوٹل پر ایک مینیجر ہوتا تھا جس کا نام محمد یوسف تھا جو اصل میں قصبہ ہندواڑہ کا رہنے والا تھا اور یہاں پر اپنی خدمات انجام دیتا تھا ۔ بارہمولہ میں ایک خدا کا مخلص بندہ ہوتا تھا جس کا نام نور الحسن تھا جو اصل میں سنگری بارہمولہ میں رہتا تھا اور محض تبلیغی نسبت کی بنیاد پر اکثر اس ہوٹل میں رہتا تھا ۔مجھے یاد ہے کہ جب میں بارہمولہ کے مین چوک میں سے گذرتا تھا تو خدا کا یہ مخلص بندہ مجھے  پکا ر کر اپنے پاس بلاتا تھا اور  منیجر محمد یوسف کو آرڈر دیتا کہ فورا ایک چائے بنا کر لاؤ اور مجھے چائے پلاتا اور قسم قسم کی دیگر چیزیں جو ہوٹل میں اکثر ہوتی تھیں پیش کرتا ۔اس خاطر نوازی کا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ خدا کا کوئی بندہ تبلیغ کے ساتھ جڑ جائے اور دین کے پنپنے کی کوئی شکل وجود میں آئے۔ حالانکہ نور صاحب ایک لکڑہارا تھا اور بڑی مشقت کے ساتھ زندگی کے دن گزارتا تھا لیکن اس فیاض دلی کے ساتھ سخاوت محض دعوت دین کے ساتھ اپنے قلبی تعلق کی وجہ سے کرتا تھا ۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دور اول کے ان مخلص بندوں کے جذبات کس قسم کے تھے اور دعوت کے ساتھ ان کی رفاقت کس پیمانے کی تھی ۔ اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔ بعد میں کشمیر کے خون آشام دور میں وہ بھی اس خو ن آشامی کے نذر ہو گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ زیر بحث بزرگ جس کا ہم یہاں تذکرہ کرنا چاہتے ہیں یعنی مرحوم غلام رسول فوروےصاحب منشی اللہ دتا رحمہ اللہ کے سچے پکے مرید تھے ۔ اور سخت محنت کر کے اپنے اہل و عیال کی پرورش کرتے تھے ایک دفعہ منشی اللہ دتا صاحب کو ان کی پر مشقت زندگی پر رحم آیا اور فرمایا کہ اے غلام رسول جا اللہ تجھے مالدار بنائے کیونکہ موصوف مرحوم رات دن خدمت کا فریضہ مسجد امیر شاہ صاحب یعنی موجودہ مسجد بیت المکرم  میں دعوتی لنگر کو سنبھالے ہوئے تھے اور کشمیر کے مختلف گوشوں سے جو لوگ  اس مرکز میں اپنی تربیت کے لیے حاضری دیتے  تھے ان کی خدمت کا سارا بوجھ خدا کے جو چند بندے اپنے اوپر لیے ہوئے تھے ان میں موصوف کا نام سر فہرست تھا ۔ موصوف کی ساری کارکردگی گھر ،ہوٹل  اور مسجد بیت المکرم کا مرکز تھا ۔ یہ کشمیر میں دعوت کا پہلا مرکز تھا جسکو بعد میں چند  وجوہات کی وجہ سے تبلیغ والوں کو دوسری مساجد میں منتقل کرنا پڑا اور آخرکار مسجد الرشاد نے اس کی مستقل جگہ لے لی ۔ جو تا حال قائم و دائم ہے ۔ مسجد الرشاد میں بھی خدمت کا زیادہ تر بوجھ اسی کے کندھوں پر پڑا رہا اور یہ خدا کا بندہ نہایت ہی خوش اسلوبی اور خوش خلقی کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھاتا رہا ۔ کبھی کبھی ذاتی قرضے کی بنیاد پر لنگر کے کام کو متاثر نہیں ہونے دیتا تھا یہاں تک کہ موصوف سنہ 2001 میں  دو فروری اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ اور اس طرح خدائی خدمت گاروں کے کافلہ کا یہ ممتاز فرد اپنے قریبی ساتھیوں کو غم فراق میں ڈال کر اپنے مولا سے ملا ۔ خدمت خلق برائے اشاعت دین موصوف کا طرہ امتیاز تھا اور اکثر فرماتے تھے کہ عبادت سے جنت ملتی ہے اور خدمت سے خدا ملتا ہے ۔اپنے امیر صاحب کی زبر دست تابعداری کرتے تھے ۔ اپنے بچوں کو ہمیشہ اسی خدمت میں مصروف رکھا  ۔آپ کے جذبہ ایثار کو دیکھ کر صحابہ رضہ اللہ عنھم اجمعین کی خدمت خلق کا منظر تازہ ہوتا تھا اور جیسے کوئی شخص اپنے قریبی رشتے داروں پر ایثار کرتا ہے موصوف اس سے زیادہ عام تبلیغی مسافروں کے ساتھ شفقت و مروت کا معاملہ فرماتے تھے ۔ آپ کے قریبی معاونین میں محترم الحاج محمد یوسف بٹ صاحب بھی شامل تھے اور خدا کے مخلص بندوں کی یہ مختصر سی ٹیم ایسی تھی جیسے ایک شریف گھرانے کے اہل خانہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودت کا معاملہ کرتے ہیں ۔ در اصل دعوت کے اندر کا اصل راز نہ تقریر کی شستگی میں ہے نہ تحریر کی روانی میں بلکہ خدمت خلق کے جذبے کی فراوانی میں ہے اور جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ 
نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے 
تسلی دل کو ملتی ہے خدا کو یاد کرنے سے 
موصوف اپنے آپ کو خدمت خلق میں زندگی بھر مٹاتےرہا اور دعوت کی کوئی شکل وجود میں آنے کو اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھتا تھا۔ شاید اب زمانہ ایسے مخلص لوگوں کو نہ دیکھےکہنا بے جا نہ ہوگا ۔ یہی در اصل دعوت کی جان ہے جو اس کا اصل سرمایہ ہے اور ایسے ہی مخلص بندوں کی جد وجہد سے یہ دعوت گمنام گوشوں سے نکل کر دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کے دروازوں کو دستک دینے لگی ۔ شاید ایسے ہی تناظر میں علامہ اقبال نے لکھا ہے 
جہاں میں اہل ایمان مانند خورشید جیتے ہیں۔ 
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے 
اللہ موصوف کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے عزیز و اقارب کو اسی نہج پر گامزن فرمائے ۔ جو بقدر استطاعت اس وقت بھی دعوت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں خدا یہ سلسلہ تا ابد قائم رکھے اور دین حق کے پنپنے کی شکلیں وجود میں لاتا رہے ۔ان چند سطور میں  دعوتی کام کے ساتھ شغف رکھنے والوں کے لیے یہی پیغام ہے کہ 
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے 
مرحوم دعوت کی اس تحریک میں ایک نمونہ تھے جس کی پرورش اور انجام بس خدمت ہی تھی اول بھی اور آخر بھی ۔ دعوت در اصل خدمت ہی کا نام ہے جو جتنا خادم بن کر چلتا ہے خدا اس کو اتنا ہی بڑا مخدوم بناتا ہے ۔ کشمیر کے اولیاء اللہ کے ایک ممتاز فرد کو شاید اسی لیے مخدوم صاحب کہتے ہیں جنہوں نے اپنے دور میں مخلصانہ خدمات کی بنیاد پر دعوتی فریضہ انجام دیا اور آج تک لوگ ان کے  آستانہ عالیہ پر حاضری دیتے ہیں ۔ یہ خدمت سے خدا ملنے کا ایک زندہ ثبوت ہے کہ اللہ تعالی ہر مخلص خادم کو آخر کار مخدومیت کا مرتبہ عطا کرتا ہے ۔ جتنے بھی بزرگ بشمول محترم امیر احمد خان  صاحب ان دونوں مراکز میں رہتے تھے ان کی نظریں نہایت ہی شفقت کے ساتھ محترم غلام رسول پر رہتی تھیں موصوف بقدر استطاعت نادار لوگوں کی مالی معاونت بھی کرتے تھے اور خدمت کا تو پوچھنا ہی کیا ہے اور موصوف یہ سارا فریضہ خوشی خوشی انجام دیتا تھا احقر کو ایک ذاتی واقعہ یاد ہے کہ ایک دفعہ میری دعوت پر پیر شمس الدین لولابی رحمہ اللہ نارواو فتح گڈھ تشریف لائے اور مرحوم کے ساتھ دعوتی افراد کا ایک ہجوم ہوتا تھا یہ خبر پا کر ایک ہجوم کی شکل اختیار کرتا تھا وہی معاملہ ہوا اب یہ ناچیز اس فکر میں پڑ گیا کہ کوئی قابل وازہ اگر ملتا تو اس کی خدمات حاصل کی جاتی ۔احقر نے ایک بھیڑ ذبح کروایا اور موصوف صرف ذاتی طور پر پیر صاحب سے ملنے کے لیے تشریف لایا تھا ۔ اس نے مجھے پریشان دیکھا تو فورا کہا کہ کسی وازے کی ضرورت نہیں ہے میں یہ کام خود کروں گا ۔ اس طرح موصوف جو میرے لیے ایک قابل قدر مہمان تھا نے رات بھر ادھر ہی رک جانے کا فیصلہ لیا اور سارے مہمانوں کی خدمت کا فریضہ انجام دیا ۔ یہ ہے جن کی قربانیوں کی بنیاد پر اتنے بڑے بڑے دعوتی مراکز قائم ہوئے۔ محض  اخلاص اور اکرام اس کا بنیادی سرمایہ تھا اور چلتی دنیا تک جب تک یہ دو اوصاف مسلمانوں میں رہیں گے تب تک دعوت  خدا کے بندوں کے دلوں کو چیرتی ہوئی مسخر کرتی رہے گی ۔خدا ان اوصاف کا کچھ حصہ ہم عاجزوں کو بھی نصیب فرمائے تو زہے قسمت ۔

 


Views : 252

Bilal

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ تعارف شخصیات تاریخ عالم اسلام کا اہم باب ھے ۔۔ قرون اولیٰ سے لیکر آج تک اقوام عالم کی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ھے مگر حضرت شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ کے دور مقدس سے لیکر آج تک بیرون کشمیر کے مقابلے میں ہم بہت پیچھے رھے ۔۔۔ اب اس صدی میں جنہوں نے پیش قدمی کی ان میں مولانا آسی مدظلہ سر فہرست ہیں فجزاہم اللہ مولاناشوکت حسین کینگ علمی جانشین مولانا سید قاسم شاہ بخاری رحمہ اللہ

2024-03-30 06:07:07


Leave a Comment