Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

شیری (بارہ مولا) کی ایک دینی مجلس میں شرکت


  • ڈاکٹر شکیل شفائی صاحب 
  • Sunday 16th of October 2022 05:33:53 PM

شیری (بارہ مولا) کی ایک دینی مجلس میں شرکت

ادارہ راہِ نجات شیری (بارہ مولا) کا ایک فعّال ادارہ ہے جو اپنے مقاصد کے تنوع اور بو قلمونی کی وجہ سے ملت اسلامیہ کے جمیع طبقات و افراد و اشخاص کو اپنے کارِ انسان تراشی و خدا شناسی کے دائرے میں سمیٹنے کی وسعت رکھتا ہے۔یہاں قلب کا گداز،زندگی کا راز اوراحساسات کا ساز آگہی کی نہروں کا روپ دھار کر معرفت الٰہی کے بحر ناپیدا کنار میں جذب ہو کر اپنی آخری قرار گاہ کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے۔
راہِ نجات نے جہاں کتب و رسائل کا گُہر نما تابناک سلسلہ شروع کرکے علمی آثار' مردانِ کار اور دُرِ شہوار کو سُفن و صحائف میں محفوظ کرنے کی تاریخ رقم کی ہے وہیں پر علم خیز مجلسوں، مئے ریز محفلوں،عطر بیز ملاقاتوں اور معرفت آمیز دعوتوں کے ذریعے دینی قدروں کو فروغ دینے اور نفوس میں تزکیہ و طہارت کی خوشبو چھڑکنے کی عمدہ تمثالیں بھی قائم کی ہیں۔
ادارہ کے روح رواں اور میرِ کارواں مصنف و شاعر و ادیب جناب آسیؔ غلام نبی وانی کا راقم آثم سے حدود سے متجاوز حُسنِ ظن جب بھی سماعت کے باریک پردوں سے اُن کی کھنک دار آواز بن کر ٹکراتا ہے تو یہ اس امر کا عندیہ ہوتا ہے کہ میں کسی دینی مجلس میں مدعو ہوں اور ساتھ ہی مجھے اپنی بے ربط و غیر آشنا ہدف گفتگو سے معزز سامعین کی سمع خراشی کرنا ہوگی۔ اب کے بار بھی اس روایت کا اعادہ ہوا۔9 اکتوبر   2202  عیسوی مطابق 12 ربیع الاول 1444ھجری یک شنبہ کو سرینگر سے روانگی ہوئی۔ عزیزم ڈاکٹر امتیاز قیوم نے ہمراہ چلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا البتہ (جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا) وہ صحت کی ناسازی کی وجہ سے ہمرکاب نہ ہو سکے۔عزیزم ماجد کرمانی جو ان مختصر اسفار میں عموماً ساتھ ہوتے ہیں، ان کے بارے میں معلومات حاصل نہ تھیں کہ وہ سرینگر میں موجود ہیں یا نہیں کیونکہ چند روز قبل وہ کسی عزیز کی شادی خانہ آبادی میں بغرض شرکت سرینگر سے باہر گئے تھے اور چند دنوں سے رابطے میں نہیں تھے۔
میرے علاوہ لاوے پورہ کے ہر دلعزیز صاحبِ علم و فہم جناب مولانا غلام محمد پرے عطار بھی مجلس مذکور میں مدعو تھے اور حسن اتفاق سے وہ اس سفر میں میرے ہمرکاب تھے۔ میرے لیے اُن کی معیت ایسی ہوتی ہے جیسے اندھیری شب میں چاندنی چھٹکے۔مولانا ٹھہرے کتابوں کے شیدائی اور راقم آثم اس راہ کا سبک خرام راہی۔آپ کہہ سکتے ہیں:
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو

پھر کیا تھا گفتگو چل نکلی اور دُور تک چلی گئی۔ ہم سفر ساتھیوں میں فکری و دعوتی اتفاق و امتزاج ہو تو سفر سات رنگوں کی قوس قزح کا نظارہ پیدا کرتا ہے اور وقت شتر بے مہار کی صورت نکیل سے نکل جاتا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے ہم شیری کی حدود میں داخل ہوگئے۔آسی ؔصاحب دفتر کے باہر ہی کھڑے تھے۔ وقت صبح کا ہو،دھوپ نکھری ہو،فضا شفاف ہو، ہوا خنک ہو تو کون دیوانہ نہ ہوجائے البتہ خزاں میں ہوا کی خنکی تھوڑی سے برودت کا احساس دلاتی ہے بالخصوص ایسے مقام پر جو خوبصورتی میں وادیِ لولاب کا مثنیٰ ہو۔مہمانوں کا ورود ہنوز شروع نہ ہوا تھا۔ہم  راہ نجات کے دفتر (جو عمارت کی نچلی منزل میں واقع ہے) میں داخل ہوئے۔یہاں بھی ہماری علمی گفتگو کے دھارے بہتے رہے۔آسی ؔصاحب نے اپنی تازہ تصنیف ”تخلیقِ آدم کا مقصد“ جو ہنوز طباعت کے مرحلے میں ہے،کے بعض اقتباسات سنائے۔خزاں کی دھوپ کسے بھلی نہیں لگتی۔مہمانوں کے آتے ہی ہمیں عمارت کی بالائی منزل کے ایک کمرے میں جانے کا حکم ہوا۔ میں تھوڑی دیر تک باہر دھوپ ہی میں کھڑا رہا۔ نظریں دریائے جہلم پر تھیں جو بزبانِ حال شکایت کر رہا تھا کہ آس پاس کی پہاڑیوں سے ابھرنے والی ندیوں کا شفاف پانی جہلم کا حصہ بننے سے پہلے ہی کوڑا ڈال کر گدلا کر دیا جاتا ہے۔
ہال نما کمرے میں چند مہمان تشریف فرما تھے کچھ دوسرے آرہے تھے۔ مہمانوں کی تواضع چائے سے کی گئی۔ مجھے چائے کی سخت طلب تھی،روا روی میں دو پیالیاں پی گیا تب جا کے حواس درست ہوئے۔جب مہمانوں کی معتد بہ تعداد آگئی تو آسی ؔصاحب نے افتتاحی کلمات سے مجلس کا آغاز کیا۔ انہوں نے اجتماع کی غایت پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ ادارہ راہ نجات معاشرے کے تمام طبقوں تک اپنا پیغام پہنچانے کا خواہاں ہے۔ جہاں ہم تحریری صورت میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں،سیمیناروں کا انعقاد کرتے ہیں، وہیں ہماری یہ کوشش بھی رہتی ہے کہ امت کے تمام کام کرنے والے درد مند حضرات کو اس ادارے کے ذریعے ایسا پلیٹ فارم مہیا کریں جہاں سے وہ دعوت و تربیتِ دین کا فریضہ انجام دے سکیں۔ آج کی نشست میں ہم نے اپنے بزرگ ساتھیوں کو مدعو کیا ہے۔
مہمانوں میں چند چوٹی کے کنہ مشق تبلیغی حضرات بھی شامل تھے۔آسی ؔصاحب نے اپنی تقریر کے بعد مجھے دعوتِ سخن دی۔ اب میں ٹھہرا معلّم،تقریر کس ہُما کا نام ہے مجھے کیا معلوم؟ میں نے بس اِدھر اُدھر کی باتیں کہیں جو ممکن ہے کسی کو پسند بھی آئی ہوں۔ طول بیانی میری سرشت میں ہے میں نے اپنی سخن سازی ختم کی تو ظہر کا وقت شروع ہوا چاہتا تھا۔ فیصلہ یہی ہوا کہ پہلے مسجد شریف میں (جو پاس ہی واقع ہے) نمازِ ظہر ادا کی جائے۔ اس مسجد میں راقم کو کئی بار سجدہِ بے روح ادا کرنے کی توفیق ملی ہے۔یہاں آسی ؔصاحب پچھلے قریباً چھتیس سال سے خطابت کا فریضہ ادا کرتے آرہے ہیں۔ نماز ظہر کے بعد ظہرانہ تناول کیا گیا۔ مہمانوں کی تواضع بریانی سے کی گئی۔ اس بات کا اعتراف لازمی ہے کہ بریانی کافی لذیذ تھی بلکہ ایک بزرگ کے بقول حیدرآبادی بریانی کا ذائقہ لیے تھی۔کھانا تناول کرنے کے بعد آسی صاحب دوبارہ کھڑے ہوئے۔ اس بار بھی انہوں نے ادارے کے مقصد کی توضیح کی اور خاص طور پر اس بات پر زور دیا کہ یہ ادارہ کسی جماعت،تحریک یا ادارے کے مقابل وجود میں نہیں آیا ہے؛آسی صاحب کے بعد حافظ آصف صاحب نے تلاوت قرآن پاک فرمائی اور عزیزم یونس نے نعت پڑھی۔بعد ازاں مولانا غلام محمد پرے صاحب نے اپنی گفتگو شروع کی۔انہوں نے ادارہ راہ نجات کے ایک زیر تجویز شعبہ”دار المبلغین“کی ضرورت و افادیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔ان کی تقریر میں علمی نکات خوب چھلکتے رہے۔ مولانا کی تقریر کے ساتھ ہی مجلس اختتام کو پہنچی۔
مہمانوں میں ایک بزرگ نے راقم آثم سے کہا کہ معلوم ہوتا ہے ہم پہلے کہیں مل چکے ہیں۔ذہن کے کسی افتاد گوشے میں مجھے بھی یہ صورت کچھ جانی پہچانی دکھ رہی تھی لیکن پوری طرح یاد نہ آرہا تھا کہ ہم کہاں ملے ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ موصوف شیخ پورہ بڑگام میں واقع دارالعلوم کشمیر کے مہتمم مولانا محمد مقبول صاحب کے والد گرامی ہیں۔ پھر یاد آیا کہ یہ وہاں گاہ گاہ تشریف لاتے تھے۔ دس بارہ سال قبل میرا عارضی قیام شیخ پورہ بڑگام میں تھا۔میں بیچ بیچ میں دارالعلوم ہی میں نماز ادا کرتا بلکہ ایک آدھ بار جمعہ کا خطبہ بھی دیا۔ ان بزرگ کی یاداشت کی داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔
واپسی پر حافظ آصف صاحب ہمارے ہمسفر تھے۔ وہ اصل میں شیری کے رہنے والے ہیں البتہ سرینگر میں علاقہ باغات میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اور ایک مقامی اسکول میں پڑھاتے بھی ہیں۔ واپسی پر بھی ہماری علمی و ادبی گفتگو کا چشمہ پھوٹتا رہا اس فرق کے ساتھ کہ اب دو دیوانوں میں ایک فرزانہ شامل ہوگیا تھا۔
جن علماء و فضلاء اور دین دار حضرات سے راقم کے تعلقات رہے ہیں اور ان کا دائرہ کافی وسیع ہے ان میں آسیؔ صاحب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے خانوادہ کے تمام افراد نہ صرف دینی وضع قطع کے حامل ہیں جن کے چہروں سے معصومیت ٹپکتی نظر آتی ہے بلکہ یہ تمام لوگ راہ نجات کی دعوت سے کسی نہ کسی صورت میں منسلک ہیں۔ آسیؔ صاحب کے فرزند سالکؔ بلال جو ماشاء اللہ خود بھی صاحبِ علم و قلم ہیں اپنے والد کے دست راست ہیں -۔ اللہ سب کو ایسی مطیع و فرمانبردار اولاد عطا فرمائے۔ سالک ؔصاحب نے یہ خبر دی کہ ادارہ راہ نجات کے زیر اہتمام مختلف سیمیناروں میں پڑھے گیے مقالات کا مجموعہ ٹائپنگ کے آخری مرحلے میں ہے اور جلد ہی شائع ہونے والا ہے۔
خزاں کے ایام نسبتاً چھوٹے ہوتے ہیں۔شام ہوتے دیر نہیں لگتی۔مجھے واپسی کی جلدی تھی کیونکہ اتوار کو محلے کی ایک مسجد میں بعد نماز مغرب میری حدیث کی کلاس ہوتی ہے لہذا ہم نے بعجلت تمام سرینگر کا رخ کیا۔ ویسے تو شیری کی ہر چیز میں جاذبیت ہے البتہ ہم پنیر خریدے بغیر واپس نہیں آئے۔ یہاں کا پنیر واقع میں بہت لذیذ ہوتا ہے۔گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی شیری کی حدود سے نکلی - سورج پر دھیرے دھیرے دردی چھا رہی تھی، جہلم مست بہہ رہا تھا' بلند قامت پہاڑ مسکرا رہے تھے اور ہم دن بھر کی خوشگوار یادوں کے ساتھ گفتگو کی ایک نئی دنیا میں داخل ہوئے۔

 


Views : 559

Leave a Comment