مجلسِ علمی (شیری، بارہمولا) کا چوتھا سمینار
میرے محترم بزرگ (جو اپنی علمی اور عملی سرگرمیوں کے لحاظ سے جوانوں سے کسی طور کم نہیں) جناب آسی غلام نبی وانی (مؤسس مجلس علمی) نے دو تین ہفتوں پہلے فون پر اطلاع دی کہ21 مئی کو ایک سمینار بعنوان ''مقصدِ تخلیقِ انسانی'' منعقد کیا جانا تجویز ہوا ہے اور آپ کو لازماً اس میں شرکت کرنی ہے میں نے عذر پیش کیا کہ اس دن پہلے ہی ایک پروگرام میں شریک ہونا طے ہوا ہے لہٰذا میں شرکت سے معذور ہوں لیکن آسی صاحب ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہیں۔انہوں نے فوراً کہا کہ ہم سمینار کی مجوزہ تاریخ بدل دیں گے۔چنانچہ انہوں نے 29 مئی کی تاریخ مقرر کی -بہر حال اس کے بعد اب میرے لیے کوئی عذر باقی نہ رہا اور میں نے شرکت کا ذہن بنا لیا
میری حد سے بڑی ہوئی مشغولیت کے سبب میرے لیے مقالہ لکھنا چنداں آساں نہ تھا لیکن سمینار میں تبرکاً شرکت کرکے بزرگانہ پند و نصائح سے سامعین کو مسرور (درحقیقت محزون) کرنا میرے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا لہذا مقالہ لکھنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ آسی ؔصاحب نے اجازت مرحمت فرمائی کہ میں اپنے رفقاء میں سے کسی کو چاہوں تو ساتھ لے جا سکتا ہوں۔ عزیزم ماجد تو بہرحال تیار ہی تھے آخری لمحات میں گندر پورہ کے عمر بھی آنے کے لیے تیار ہوگی۔ عین سمینار کے دن لاوے پورہ کے مولانا غلام محمد پرے عطار صاحب نے صبح فون کیا اور اپنی معیت سے ہمیں مشرف کرنے کا مژدہ سنایا۔ مولانا کی مصاحبت کو میں نے نعمتِ یغما سمجھا - نو بجے روانگی ہوئی - مولانا اپنے ایک رفیق حافظ معراج الدین صاحب کے ساتھ بر لبِ سڑک انتظار کر رہے تھے۔
مولانا غلام محمد پرے صاحب مرنجان مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ صاحب علم،صاحب مطالعہ، یاروں کے یار،فکرِ مستقیم اور صحتِ عقیدہ کے حامل،کتابوں کے بڑے شوقین اور شناس کار، راستہ بھر ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا کیسے گزرا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم بارہمولا کی حدود میں داخل ہوگئے۔میں گاہ گاہ بارہمولا کی خوبصورت وادی کی طرف ساتھیوں کو متوجہ کرتا رہا،بلند قامت پہاڑ زبانِ حال سے داستانِ پارینہ سناتے رہے ساتھ ہی بعض لوگوں کی بے وفائی کی گواہی بھی دیتے رہے۔شیری پہنچے تو میزبان کو منتظر بر استقبال پایا۔ سمینار کا اہتمام جامع مسجد (شیری) میں کیا گیا تھا۔ آسی ؔصاحب اس مسجد میں تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے خطابت کے فرائض انجام دیتے آ رہے ہیں ۔ مہمانوں کی تواضع چائے سے کی گئی۔ رفتہ رفتہ مقالہ نگار اور دیگر مہمان بھی قدم رنجہ فرماتے رہے۔
راقم کے علاوہ جو مقالہ نگار مدعو تھے ان میں مولانا غلام محمد پرے،ڈاکٹر نذیر احمد،ڈاکٹر نثار احمد ندوی،جاوید احمد ملک،ڈاکٹر محمد یوسف جامی، مولانا طالب بشیر ندوی اور مولانا جعفر ندوی شامل ہیں۔ ان میں سے ڈاکٹر نذیر احمد زرگر اور ڈاکٹر محمد یوسف جامی تشریف نہیں لائے۔ مولانا طالب بشیر ندوی نے کسی وجہ سے اپنا مقالہ نہیں پڑھا۔
نشست اول
سمینار گیارہ بجے شروع ہوا۔ نظامت کے فرائض آسی صاحب کے لائق،صاحبِ علم صاحبزادے بلال سالکؔ نے انجام دیے۔ نشست اول کی صدارت مولانا غلام محمد پرے صاحب نے کی۔ تلاوت کا فریضہ حافظ معراج الدین صاحب نے ادا کیا اور نعت پاک سے عزیزم محمد یونس (منیجر مجلس علمی) نے سامعین کو محظوظ کیا۔ اس کے بعد آسیؔ صاحب مدظلہ نے افتتاحی کلمات بیان فرمائے اور سمینار کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔ نشست اول میں مولانا جعفر ندوی،جاوید احمد ملک،مولوی حافظ آصف احمد اور راقم نے مقالے پڑھے۔ جاوید صاحب کا مقالہ بلا شک فاضلانہ تھا تاہم انہوں نے سیرت رسول صل اللہ علیہ وسلم کے چند پہلو بھی مقالے سے جوڑے جو فی نفسہ بے حد معلوماتی اور دلچسپ ہونے کے باوجود موضوع کی نسبت سے غیر متعلق تھے۔ راقم کا مقالہ نسبتاً طویل تھا لہذا اس کے چیدہ چیدہ مقامات پڑھنے پر اکتفا کیا گیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تمام مقالہ نگاروں نے مقالے کی تیاری میں بڑی محنت کی تھی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی چیز کو بہتر سے بہتر بنانے کا امکان بہرحال موجود رہتا ہے۔ مولانا غلام محمد پرے اور آسی صاحب تنگیِ وقت کی وجہ سے پہلی نشست میں اپنے مقالے نہیں پڑھ سکے۔
سوا ایک بجے ظہر کی نماز ادا کی گئی اور ظہرانہ تناول کیا گیا - دو بجے دوسری نشست شروع ہوئی۔
دوسری نشست
دوسری نشست میں تلاوت قرآن پاک کی ذمہ داری حافظ آصف صاحب نے ادا کی اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضہ مولانا بلال احمد رحیمی نے انجام دیا۔ صدارت کا بارِ گراں راقم کے نتواں کاندھوں پر ڈال دیا گیا۔ اس نشست میں مولانا غلام محمد پرے اور آسیؔ صاحب نے اپنے مقالے کچھ وضاحتوں کے ساتھ پیش کیے۔ بعد ازاں راقم نے آدھ گھنٹے تک سمینار میں پڑھے گئے مقالوں کا خلاصہ بیان کیا اور چند توضیحات بھی پیش کیں۔ مولانا غلام محمد صاحب کی دعاؤں سے سمینار اختتام کو پہنچا۔ اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ جناب سالک صاحب نے عالمانہ طرز پر نظامت کی ذمہ داری ادا کی۔ اس سے سمینار کا حسن دوبالا ہوا۔ اخیر پر آسی صاحب کی شاندار کتاب”مقصدِ تخلیقِ کائنات“کی رسم رونمائی ہوئی نیز مجلس علمی کے ویب سائٹ کے ڈیزائنر عزیزم”عاقب مجید“ کی اسناد کے ذریعے حوصلہ افزائی کی گئی۔
یہ بات قابل اصلاح ہے اور اسی لیے قابلِ توجہ ہے کہ ہمارے اکثر سیمیناروں اور اس نوع کے دوسرے پروگراموں میں دیکھا گیا ہے کہ مقالہ نگار یا مقرر اپنا مقالہ پڑھ کے یا اپنے حصے کی تقریر فرما کر اس بہانے اُس بہانے رخصت لے کر پروگرام کے بیچ میں ہی چلے جاتے ہیں۔ واللہ اعلم اس نفسیات کا شرعی نام کیا ہے؟
سمینار کی آخری ساعتوں میں زور کا مینہ برسا لیکن پھر بادل کھل گئے،نکھری نکھری زرد دھوپ دوبارہ نکلی۔ہر چیز دُھل کر صاف ہوگئی تھی۔ جہلم بہ رہا تھا اور جنگلوں سے لبریز پہاڑ مشام جاں کو بھینی بھینی خوشبوؤں سے معطر کررہے تھے۔پونے پانچ بجے قافلہ بطرف سرینگر روانہ ہوا۔ اس بار بارہ مولا کے نہایت شریف النفس جناب محمد امین صاحب ہمرکاب تھے۔وہ بارہ مولا میں اترے۔ بادلوں کے سفید ٹکڑے آسمان پر یوں تیر رہے تھے جیسے کسی حبیب کی تلاش میں ہوں،جہلم مستی میں بہ رہا تھا' میں نے ساتھیوں کو دریا کے پار ایک مسجد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حضرت مفتی سید عبدالرحیم حسنی قاسمی مد ظلہ کا مدرسہ ہے ، ساتھی یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور وہاں کسی روز اوقات فرصت میں حاضری دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی گزرتی رہی اور میں نے مولانا غلام محمد صاحب سے اس موضوع پر دوبارہ گفتگو شروع کی جو صبح ادھورا رہ گیا تھا۔
(شکیل شفائی)
نوٹ: مجلس علمی کا یہ چوتھا سمینار تھا۔پہلا سمینار مدرسہ سراج العلوم میں منعقد ہوا جو بارہمولا کی معروف علمی شخصیت مولانا سید عبد الولی حسنی کی زندگی اور کارناموں پر تھا۔ دوسرا سمینار بارہمولا کے مرکزی بازار میں منعقد ہوا ' تیسرا اور چوتھا سمینار جامع مسجد (شیری) میں منعقد ہوا۔ راقم نے چاروں سیمیناروں میں شرکت کی اور مقالے پڑھے جو ممکن ہے کسی روز زیورِ طباعت سے آراستہ ہوں
Views : 531