امام ابوبکر الجصاص رحمہ اللہ اور ان کا تفسیری منہج
(قسط ۲)
ڈاکٹر شکیل شفائی
امام ابوبکر جصاصؒ چوتھی صدی ہجری کے بلند پایہ مفسر،' محدث،فقیہ، اصولی اور کئی مفید کتابوں کے مصنف رہے ہیں۔ ان کی ولادت 305ھ میں ہوئی۔ اصل نام احمد بن علی تھا - جصاص گچ اور چونے کی طرف نسبت ہے۔غالباً یہ خاندانی پیشہ رہا ہوگا۔امام ابوبکر ؒنے اپنے زمانے کے کِبّار علمائے احناف سے تحصیلِ علم کی۔ ان میں امام ابو الحسن کرخیؒ، ابو سہل زجاج،ابو سعید بردعیؒ اور موسیٰ بن نصر رازیؒ کا نام معروف ہے۔امام صاحب نہایت درجہ کے عابد، زاہد اور مرتاض بزرگ تھے۔علم کی تحصیل میں کافی جانفشانی کی یہاں تک کہ بغداد میں حنفیہ کے امام ہوگئے اور مرجع الخلائق کی حیثیت اختیار کی۔ زمانے کے دستور کے مطابق تحصیلِ علم میں کئی بلاد اسلامیہ اھواز،نیشاپور وغیرہ کے اسفار کئے اور وہاں کے مشائخ سے استفادہ کیا بالخصوص حدیث اور فقہ میں۔ بالآخر بغداد میں سکونت اختیار کی اور یہیں پر درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا تاآنکہ بغداد ہی میں 370 میں وفات پاگئے۔
امام صاحب سے خلق کثیر نے استفادہ کیا۔ ان میں امام ابو عبداللہ الجرجانی اور امام ابوالحسن الزعفرانی قابلِ ذکر ہیں۔امام ابوبکر جصاصؒ کئی اہم کتابوں کے مصنف تھے۔ان کی تصانیف میں الفصول فی الأصول،احکام القرآن، شرح مختصر کرخی، شرح جامع صغیر (للإمام محمد بن حسن الشیبانی)، شرح الأسماء الحسنیٰ، کتب جواب السائل وغیرہ شامل ہیں -خیر الدین الزِرکلی، الأعلام میں لکھتے ہیں ”احمد بن علی الرازی أبو بکر الجصاص فاضل من أہل الری سکن بغداد و مات فیہا۔ انتہت إلیہ رئاسۃ الحنفیۃ و خوطب فی أن یلی القضاء فامتنع و ألف”أحکام القرآن“ و کتاباً فی أصول الفقہ“ (ج۱ صفحہ نمبر ۱۷۱)احمد بن علی الرازی ابوبکر الجصاص رَے کے فاضل تھے، بغداد میں سکونت اختیار کی اور وہیں پر فوت ہوئے۔ ان پر احناف کی ریاست ختم ہے۔ ان پر قضاء کا عہدہ پیش کیا گیا لیکن انہوں نے قبول نہ کیا۔ انہوں نے”احکام القرآن“ کے نام سے ایک کتاب لکھی - اس کے علاوہ اصول فقہ میں ان کی ایک کتاب ہے “۔
علامہ خطیب بغدادی ان کے بارے میں لکھتے ہیں ِ، ہو إمام أصحاب أبی حنیفۃ فی وقتہ و کان مشہوراً بالزہد۔ خوطب فی أن یلی القضاء فامتنع و أعید علیہ الخطاب فلم یفعل۔ تفقہ علی سہل و علی أبی الحسن الکرخی و بہ انتفع و علیہ تخرّج۔ و قد دخل بغداد سنۃ خمس و عشرین ثم إلی الأہواز ثم عاد إلی بغداد، ثم خرج إلی نیسابور مع الحاکم النیسابوری برأی شیخہ أبی الحسن الکرخی و مشورتہ فمات الکرخی وہو بنیسابور، ثم عاد إلی بغداد سنۃ أربع و أربعین و ثلاثماءۃ، و تفقہ علیہ جماعۃ منہم أبو عبداللہ محمد بن یحییٰ الجرجانی (شیخ القدوری) و أبو الحسن محمد بن أحمد الزعفرانی، و روی الحدیث عن عبدالباقی بن قانع و أکثر عنہ فی أحکام القرآن، و لہ من المصنفات أحکام القرآن و و شرح مختصر شیخہ و شرح مختصر الطحاوی و شرح الجامع لمحمد بن الحسن الشیبانی و شرح الأسماء الحسنیٰ ولہ کتاب مفید فی أصول الفقہ و لہ جوابات علی مسائل وردت علیہ۔ مات سنۃ سبعین و ثلاثماءۃ“ (أحکام القرآن - عبد السلام محمد بن علی شاہین) وہ اپنے وقت میں اصحابِ ابو حنیفہ کے امام تھے اور زھد میں کافی معروف تھے۔ ان پر قضاء پیش کی گئی لیکن قبول نہیں کی پھر دوبارہ پیش کی گئی لیکن انہوں نے منع کردیا۔ ابتداءً ابو سہل زجاج سے فقہ کی تعلیم پائی۔ فقہ کی تکمیل ابو الحسن کرخی سے کی، ان سے کافی فیض پایا اور انہی کے پاس فراغت حاصل کی۔ سنہ 25 میں بغداد میں داخل ہوئے پھر اھواز چلے گئے، اس کے بعد دوبارہ بغداد آئے پھر اپنے شیخ ابو الحسن کرخی کی رائے اور مشورے سے حاکم نیشاپوری کے ہمراہ نیشاپور گئے۔ ابھی نیشاپور ہی میں تھے کہ کرخی نے وفات پائی لہٰذا یہ پھر 344 ھ میں بغداد
واپس لوٹے۔ ان سے ایک جماعت نے استفادہ کیا ان میں ابوعبداللہ محمد بن یحییٰ جرجانی (جو مشہور حنفی فقیہ قدوری کے شیخ تھے) اور ابوالحسن محمد بن احمد الزعفرانی قابلِ ذکر ہیں۔ امام ابوبکر نے عبدالباقی بن قانع سے حدیث کی تحصیل کی اور احکام القرآن میں ان سے کافی استفادہ کیا - ان کی کئی مصنفات ہیں۔ ان میں احکام القران، مختصر کرخی کی شرح، مختصر طحاوی کی شرح،امام محمد کی جامع صغیر کی شرح، الاسماء الحسنیٰ کی شرح۔ اصول فقہ میں ان کی ایک مفید کتاب ہے۔ ایک کتاب ان مسائل کے جواب میں ہے جو ان پر پیش کیے گئے۔ ۰۷۳ ہجری میں وفات پائی۔
محمد بن عبدالباقی الزرقانی شرح مواھب لدنیہ میں لکھتے ہیں،”ابو بکر الرازی احمد بن علی بن حسین الإمام الحافظ محدث نیسابور من أئمۃ الحنفیۃ، سمع أبا حاتم و عثمان الدارمی و عنہ أبو علی و أبو أحمد الحاکم۔ قال ابن عقدہ: کان من الحفاظ“(ایضاً)۔ ابو بکر رازی احمد بن علی بن حسین امام حافظ نیساپور کے محدث احناف کے اماموں میں سے ایک۔ ابو حاتم اور عثمان الدارمی سے حدیث کی سماعت کی۔ان سے ابو علی اور ابو احمد حاکم نے استفادہ کیا۔ ابن عقدہ نے کہا: وہ حفاظِ حدیث میں سے تھے۔
امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے،”الإمام العلامۃ المفتی المجتہد، علم العراق، أبو بکر أحمد بن علی الرازی الحنفی صاحب التصانیف۔تفقہ بأبی الحسن الکرخی و کان صاحب حدیث و رحلۃ لقی أبا العباس الأصم و طبقتہ بنیسابور و عبد الباقی بن قانع و دعلَجَ بن أحمد و طبقتہما ببغداد و و الطبرانی و عدۃ باصبہان۔و صنف و جمع و تخرج بہ الأصحاب ببغداد و إلیہ المنتہیٰ فی معرفۃ المذہب۔ قدم بغداد فی صباہ فاستوطنہا۔و کان مع براعتہ فی العلم ذا زہد و تعبد۔ عرض علیہ قضاء فامتنع منہ و یحتج فی کتبہ بالاحادیث المتصلۃ باسانیدہقال الخطیب،حدثنا ابو العلاء الواسطی قال”امتنع أبوبکر الابہری المالکی من أن یلی القضاء فامتنع فقالوا لہ فمن یصلح؟ قال، ابو بکر الرازیقال،و کان الرازی یزید حالہ علی منزلۃ الرہبان فی العبادۃ فارید علی القضاء فامتنع رحمہ اللہ“(ج 12 ص 344)امام علامہ مفتی مجتہد۔ عراق کا نشان ابوبکر احمد بن علی رازی حنفی صاحبِ کتب کثیرہ۔فقہ ابوالحسن کرخی سے پڑھی۔ صاحب حدیث تھے،تحصیل علم میں سفر کیے، ابوالعباس اور ان کے طبقہ کے دیگر علماء سے نیشاپور میں ملاقات کی۔ اسی طرح بغداد میں عبدالباقی بن قانع، دعلج بن أحمد اور ان کے طبقہ کے علماء سے ملاقات کی۔ اصبہان میں امام طبرانی اور دیگر علماء سے فیض حاصل کیا۔امام ابوبکر نے کتابیں تصنیف کیں، نصوص کو جمع کیا۔بغداد میں لوگوں نے ان سے استفادہ کیا۔ حنفی مذہب کی معرفت میں مرجع الناس تھے۔ صغر سنی میں بغداد آئے اور پھر اسے ہی اپنا وطن بنا لیا۔علم میں گہرائی کے ساتھ عابد و زاہد بھی تھے ان پر عہدہ قضا پیش کیا گیا لیکن انہوں نے منع کردیا۔اپنی کتابوں میں متصل الاسناد احادیث سے استدلال کرتے ہیں خطیب نے کہا کہ ہم سے ابوالعلاء واسطی نے بیان کیا،کہا: ابوبکر ابھری مالکی نے قاضی بننے سے منع کیا تو ان سے لوگوں نے پوچھا:پھر اس کا اہل کون ہے؟ اس پر وہ بولے: ابو بکر الرازی۔ خطیب یا واسطی نے کہا کہ عبادت میں الرازی راہبوں کے درجے پر تھے۔ ان پر عہدہ قضا پیش کیا گیا لیکن انہوں نے منع کر دیا۔ اللہ کی ان پر رحمت ہو“۔
......... (جاری)
Views : 821