" مقصدِ تخلیقِ کائنات"
مصنف : جناب آسی غلام نبی وانی صاحب
صفحات : ١٢٤
ناشر : مجلس علمی ' جموں و کشمیر
فلسفیانہ نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو بنی نوع انسان کو ان سوالات نے ہمیشہ ورطہِ اضطراب میں ڈال رکھا ہے کہ میں کون ہوں؟ مجھے کس نے بنایا اور کیوں بنایا؟ میرا مآل و مرجع کیا ہے؟ انہی سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش میں فلاسفہ کی ایک جماعت پوری تاریخِ انسانی میں اُفتاں و خِیزاں سر گشتہ و سرگرداں رہی ہے لیکن بجز سنگریزوں کے ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا -
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم نے ایک خوبصورت بات لکھی ہے کہ جن فلسفیانہ گُتھیوں کو سُلجھانے میں (تاریخ کے عظیم) دماغ ضائع ہوگیے ان کو قرآن کریم نے چھوٹے چھوٹے جملوں میں حل کردیا - مثلاً ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جانا ہے؟ اس کی ترجمانی درج ذیل شعر میں کی گئی ہے :
مسئلے نہ سمجھ پائے ازل اور ابد کے
کیا جانیے جانا ہے کہاں آئے کدھر سے
قرآن مجید نے ایک چھوٹی سی آیت میں یہ گُھتی سلجھا دی :
انا لله وانا اليه راجعون
لیکن جن لوگوں نے قرآن پاک کا دامن پکڑا انہیں ان سوالات کا جواب مل گیا اور یوں وہ زندگی کی بھل بھلیوں میں راہ گُم کردہ ہونے سے محفوظ رہے -
تخلیقِ کائنات کا مقصد کیا ہے؟ یہ سوال بھی انہی معرکہ آرا سوالات میں سے ایک ہے - اسی کا جواب ہمارے بزرگ اہلِ علم و قلم - کہنہ مشق شاعر ' معروف داعی و دانشور' مؤسس مجلس علمی - جموں و کشمیر ' مدیر اعلیٰ ماہنامہ " راہِ نجات" جناب آسی غلام نبی وانی صاحب نے اپنی وقیع تازہ تصنیف " مقصدِ تخلیقِ کائنات" میں دیا ہے - اگر میں پوری کتاب کا خلاصہ و نچوڑ پیش کرنا چاہوں تو مصنف کی درج ذیل عبارت اس کا تکفل کرے گی "
" خلاصۃ الخلاصہ اس کتاب کا یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے ذاتی ارادہ سے ایک جنتی معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے لیکن اس جنتی معاشرے کے لائق کون افراد ہوں گے - اللہ نے ان کی جانچ کے لیے اس وسیع کائنات کو پھیلایا اور اس جہانِ فانی میں اللہ اپنے خاص بندوں کو دیکھنا چاہتا ہے جو غائبانہ طور اللہ سے ایسے ڈرنے والے ہوں جیسا وہ احکم الحاکمین کے سامنے ڈرتے - گویا اللہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کوئی شخص یؤمنون بالغیب کے تحت ایسا ڈرنے والا ہے جیسے اس کو دیکھ کر ڈرنے والا ہو - یہی لوگ دراصل جنتی معاشرے کے حقیقی امیدوار ہیں - "(ص ١٢٠)
لیکن مقصدِ تخلیقِ کائنات چند اور سوالات کو مستلزم ہے مثلاً یہ کہ اس کائنات میں انسان کا مقام کیا ہے؟ اپنے فہم و شعور کو پہنچنے کے بعد انسان کو موت کیوں آتی ہے؟ موت و حیات کا سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ آخری انسان کی موت کے بعد کیا ہوگا؟
آسی صاحب نے کتاب کی ابتداء میں انہی سوالات کو ابھار کر ان کے جوابات لکھے ہیں پھر اس سلسلے میں تعلیماتِ قرآنی کا خلاصہ پیش کیا ہے جو ایک مسلمان کے تخلیق ِکائنات کے متعلق عقیدے پر روشنی ڈالتا ہے -
کتاب کا موضوع یک گونہ فلسفیانہ ہونے کے باوجود خشک نہیں - اس کی وجہ مصنف کا آسان اسلوب ہے - مصنف نے سائنسی تصورِ کائنات اور پیغمبرانہ تصورِ کائنات کے درمیان موازنہ بھی کیا ہے -
آسی صاحب خود شاعر ہیں اور فارسی شاعری کا پاکیزہ ذوق رکھتے ہیں - ان کا ذوق ان اشعار کے دریچوں سے جلوہ گر نظر آتا ہے جو انہوں نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے بطور مستدل تحریر کیے ہیں - ان کا اکثر حصہ مثنوی مولانا رومی سے لیا گیا ہے -
مقصد اور قصد کے درمیان ایک دقیق فرق ہے جس کو عموماً ظاہر بیں نگاہیں دیکھ نہیں پاتیں - آسی صاحب نے اس دقیق فرق پر بھی ضوفشانی کی ہے -
آسی صاحب کی علمی جلوہ آفرینیوں نے کتاب کو معلومات کا گنجینہ بنا دیا ہے - درج ذیل عناوین سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کا خامہِ زرنگار فکر و نظر کی کن وادیوں کو سر کرتا ہوا حقائق و دقائق کی برق پاشی کر رہا ہے :
* رازِ حیات و ممات
* مقصدِ تخلیقِ کائنات
* تخلیقِ کائنات کے پیچھے منشائے باری تعالیٰ
* اللہ اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے؟
* تخلیقِ آدم کے متعلق مولانا رومی کی فکر کا خلاصہ
* انسانی ارتقاء
* دنیا ایک وقتی نرسری یعنی پرورش گاہ ہے
* تخلیقِ آدم
* سوچ اور عمل دو طرح کے ہوتے ہیں
* اہم مخلوقاتِ خدا کی تفصیل :
( اس عنوان کے تحت فرشتے ' شیاطینِ جن' جن اور انسان کی حقیقتوں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے - اس سلسلے میں لغوی اور اصطلاحی معانی بھی زیرِ بحث آئے ہیں)
* قضا و قدر :
( اس عنوان کے تحت قضا و قدر کی گُتھی کو سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے' آسی صاحب لکھتے ہیں :
" قضا خدا کے اُس حکم کو کہتے ہیں جو مخلوقات کے حق میں دفعتاً واقع ہو - یہ اللہ کا ایک ایسا فرمان ہوتا ہے جس کے لیے اللہ کو کسی سبب کی ضرورت نہیں اور سبب اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری چیز کے حاصل ہونے کا ذریعہ بنے......... اسی طرح قدر کا مطلب ہے کسی چیز کا پیشگی اندازہ کرنا اور اندازہ بھی وہ جو انتہائی درجہ کا صحیح اور درست ہو - مخلوق کا کسی چیز کے متعلق اندازہ کبھی غلط ہو سکتا ہے لیکن اللہ جو علیم و خبیر ہے ' اُس کا اندازہ مخلوق کے متعلق کبھی غلط نہیں ہو سکتا - ")
* تصوف کیا ہے ؟
( اس عنوان کے تحت مولانا رومی کے درج ذیل شعر کی وضاحت کی گئی ہے :
" ما التصوف قال وجدان الفرح
في الفؤاد عند اتيان التَرح " )
* درجاتِ خیر و شر کی تفصیل -
* مقصدِ تخلیقِ کائنات قرآن کی روشنی میں -
( اس عنوان کے تحت مصنف نے قرآن مجید کے ٨١ مقامات سے آیات پیش کی ہیں - ان آیات کا خلاصہ مصنف کے الفاظ میں یہ ہے :
" انسان جس منظم کائنات کو اپنے ارد گرد پاتا ہے وہ سب ایک انسان کے لیے معاونِ حیات کائنات ہے - انسانی وجود کو خارج کر کے ان سب اشیاء کی اور کوئی مناسب معنویت معلوم نہیں ہوتی ہے لہذا قابلِ غور بات یہی ہے کہ وہ انسان جس کے لیے اس قدر وسیع کائنات سجائی گئی ہے اس کی پیدائش کا مقصد خالق کے نزدیک کتنا عظیم سے عظیم تر ہو سکتا ہے ")
کتاب ہر لحاظ سے قابل مطالعہ ہے - یہ کتاب مصنف کے قرآنی نظام میں طویل غور و فکر کا آئینہ ہے -
مصنف نے کہیں کہیں اردو شعر بھی نقل کیے ہیں ان میں کتابتی اغلاط در آئی ہیں - مولانا ظفر علی خان کا مشہور نعتیہ شعر یوں درج ہوا ہے :
" جو راز فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا"
جبکہ اس مصرعے میں لفظِ راز نہیں ہے - صحیح مصرعہ اس طرح ہے :
"جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا"
ص ٤٦ پر حالی کا شعر اس طرح درج ہوا ہے :
" فرشتوں سے بڑھ کر ہے انسان ہونا"
جبکہ صحیح مصرعہ اس طرح ہے :
" فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا "
ص ٥٣ پر میر درد کا شعر اس طرح نقل ہوا ہے " دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھیں کروبیاں
اس کے دوسرے مصرعے میں" تھیں " کے بجائے" تھے" صحیح ہے -
بہرحال یہ قابلِ نظر انداز تسامحات ہیں جن سے کتاب کی افادیت و اہمیت کسی طور متاثر نہیں ہوتی -
امید ہے کہ یہ کتاب مصنف کی دوسری کتابوں کی طرح ذوق و شوق سے سے پڑھی جائے گی -
Views : 391