" امام ابوبکر جصاص کا تفسیری منہج " - ( قسط 4)
(گزشتہ سے پیوستہ)
ڈاکٹر صفوت مصطفیٰ نے امام ابوبکر جصاص کے تفسیری منہج کی نو بنیادوں میں دوسری بنیاد تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے کے درمیان جمع و تطبیق کو قرار دیا ہے- تفسیر بالماثور کے اُن کے نزدیک چار مصدر ہیں:
قرآن کریم - سنت نبوی- اقوال صحابہ - اقوال ِ تابعین
پھر چاروں مصادر کی وضاحت کی ہے-
قرآن و سنت کی حجیّت تو بہرحال مسلّم ہے- جہاں تک اقوال ِ صحابہ کا تعلق ہے اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں کہ جہاں ہمیں کسی آیت کی تفسیر میں قرآن و حدیث سے کوئی جُزئیہ نہ ملے تو اُس وقت اقوالِ صحابہ کی طرف مراجعت کرنا ضروری ہے- یہ اس لیے کہ صحابہ تفسیر ِ قرآن کو دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر سمجھتے تھے کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ نے ان کو قرآن کے معانی سمجھائے تھے ' اس کی غیر معروف باتوں کی وضاحت کی تھی' اس کے مجمل کی شرح کی تھی' اس کے اشکال کو دور کیا تھا اور پھر یہ بھی کہ صحابہ قرآن کے بارے میں دوسروں کی نسبت زیادہ باخبر ہونے چاہئیں اس لیے کہ اُن کی اکثریت خالص عرب تھی لہذا جو بات اُن کی زبان میں نازل ہوئی ہو اس کی تفہیم کے لیے انہی کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے- علاوہ ازیں انہوں نے وحی کے نزول کا مشاہدہ کیا' نزول کے مقامات اور واقعات کے گواہ رہے اور سب سے بڑھ کر یہ جیسا کہ ابن کثیر نے لکھا ہے فہمِ کامل' علم ِصحیح' عملِ صالح اور قلبِ روشن میں ان کا کوئی ثانی نہیں لہذا وہ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کے فہم و علم سے استفادہ کیا جائے بالخصوص خلفائے راشدین' عبداللہ بن مسعود' عبداللہ بن عباس' ابی بن کعب' زید بن ثابت اور ان جیسے دوسرے اکابر صحابہ سے- اقوال ِ تابعین کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ اس میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے - ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ تابعین کے اقوال فہمِ قرآن میں معتبر ہیں لہذا ان سے استشہاد کیا جانا چاہیے کیونکہ زیادہ تر تفسیر انہوں نے صحابہ سے لی ہے - اسی لیے جن علماء مثلاً ابن جریر طبری' ابن کثیر' امام سیوطی نے نے تفسیر بالماثور کا اہتمام کیا ہے انہوں نے تابعین کے اقوال سے استشہاد کیا ہے چنانچہ امام ابن کثیر لکھتے ہیں :
" إذا لم تجد التفسير في القرآن الكريم ولا في السنة ولا عن الصحابة فقد أجمع كثير من الأئمة في ذلك إلى أقوال التابعين " (ص ٢٤٩)
" جب تم تفسیر کو قرآن' سنت اور اقوال ِ صحابہ میں نہ پاؤ تو ائمہ کی اکثریت اُس صورت میں اقوال ِ تابعین کی طرف رجوع کرتی ہے "علماء کی دوسری جماعت اس طرف گئی ہے کہ تفسیر ِ قرآن میں تابعین کے اقوال حجت نہیں ہیں- ان کا موقف یہ ہے کہ تاویل' رائے اور اجتہاد میں تابعین کا اختلاف صحابہ سے بھی زیادہ ہے- امام زرکشی لکھتے ہیں :" و في الرجوع إلى قول التابعي روايتان عن الامام أحمد واختار ابن عقيل المنع و حكوا عن شعبة بن الحجاج أنه قال : " أقوال التابعين في الفروع ليست بحجة فكيف تكون حجة في التفسير " ولكن عمل المفسرين على خلافه فقد حكوا في كتبهم أقوالهم لأن غالبها تلقوها عن الصحابة و لعل الرواية عن أحمد إنما هو فيما كان من أقوالهم و آرائهم " ص ٢٤٩" تابعی کے قول کی طرف رجوع کرنے میں امام احمد سے دو روایتیں منقول ہیں- ابن عقیل نے منع والی روایت اختیار کیا ہے علماء نے شعبہ بن حجاج سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : " جب فروع میں تابعین کے اقوال حجت نہیں تو تفسیر میں کیسے ہو سکتے ہیں " لیکن مفسرین کا عمل اس کے برعکس ہے- انہوں نے اپنی کتابوں میں ان کے اقوال درج کیے ہیں کیونکہ ان کا بڑا حصہ صحابہ سے منقول ہے اور امام احمد سے جو منع مروی ہے وہ شاید تابعین کے ذاتی اقوال و آراء کے بارے میں ہے " تحقیقی مسئلہ اس بارے میں یہ ہے کہ اگر تابعین کسی بات پر متفق ہوں یا ان کا اجماع منقول ہو تو اس کے حجت ہونے میں کوئی شک نہیں- جیسا کہ اوپر اس کا ذکر آیا کہ اس کا غالب حصہ صحابہ سے منقول ہے- اس کی تائید مجاہد کے اس قول سے بھی ہوتی ہے:
" عرضت المصحف على ابن عباس ثلاث عرضات من فاتحته و خاتمته أوقفه عند كل آية منه و أسأله عنها "
" میں نے قرآن کو ابن عباس پر تین بار پیش کیا فاتحہ سے لیکر خاتمے تک' ہر آیت پر ان کو روکتا اور اس کے بارے میں سوال کرتا "ہاں اگر کسی آیت کی تفسیر میں تابعین کے درمیان اختلاف ہو تو ان کے اقوال نہ ایک دوسرے پر حجت ہیں اور نہ بعد میں آنے والوں پر- اس صورت میں مفسر ان وسائل کی طرف رجوع کرے گا جن کی مدد سے وہ صحیح تفسیر تک رسائی حاصل کرے- چنانچہ امام ابن تیمیہ اصولِ تفسیر کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
" و أما إذا أجمعوا ( أي التابعون ) على شيئ فلا يُرتاب في كونه حجة فإن اختلفوا فلا يكون قول بعضهم حجة على بعض ولا على من بعدھم و حينئذ يُرجع فى التفسير إلى لغة القرآن أو السنة أو عموم لغة العرب أو أقوال الصحابة في ذلك " " پس اگر تابعین کسی معاملے میں اجماع کرلیں تو اس کے حجت ہونے میں شک نہیں اور اگر ان کے درمیان اختلاف واقع ہو تو ان کے اقوال نہ ایک دوسرے پر حجت ہیں اور نہ ہی بعد میں آنے والوں پر- اس صورت میں تفسیر جاننے کے لیے قرآن' سنت' عمومی لغت عرب یا صحابہ کے عام اقوال کی طرف مراجعت کی جائے گی- یہ تو ہوئی مسئلے کی اصول بحث - اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا امام جصاص نے اپنی تفسیر میں اسی منہج کو اختیار کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک امام جصاص نے تفسیر بالماثور کا بے حد اہتمام کیا ہے چاہے اس کے مصادر احادیث و سنن رہے ہوں یا صحابہ و تابعین کے اقوال - ان کی تفسیر کا اگر استقصاء کیا جائے تو سینکڑوں کی تعداد میں ایسے اقوال سامنے آئیں گے ' پھر وہ محض نقل نہیں کرتے بلکہ جرح و تعدیل کے اصولوں سے کام لیکر ان کی اسنادی حیثیت پر گفتگو بھی کرتے ہیں اور ان کو اپنے موقف سے مربوط بھی کرتے ہیں - ذیل میں اس کی دو ایک مثالیں پیش کی جاتی ہیں- ۱. " وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج " کی تفسیر میں اپنی سند سے ابن عباس کا قول نقل کیا ہے- لکھتے ہیں: " حدثنا جعفر بن محمد بن اليمان قال حدثنا ابو عبيد قال حدثنا حجاج عن ابن جريج و عثمان بن عطاء الخراساني عن ابن عباس في هذه الآية يعني قوله تعالى (وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج) قال كان للمتوفى عنها زوجها نفقتها و سكناها سنة فنسختها آية المواريث فجعل لهن الربع أو الثمن مما ترك الزوج قال و قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا وصية لوارث إلا أن يرضى الورثة " ( ترمذي' نسائى' احمد) ابن عباس اس آیت( وصیة لأزواجهم متاعا إلى الحول غير اخراج ) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جس عورت کا شوہر فوت ہوتا تو اس کا نفقہ اور سکن شوہر کے ترکے میں سے ایک سال کے لیے ہوتا تھا پھر آیت ِ مواریث نے اس کو منسوخ کردیا اور عورتوں کے لیے (بعض صورتوں میں) چوتھائی یا (بعض صورتوں میں) آٹھواں حصہ اس ترکہ میں سے مقرر کیا جو شوہر نے چھوڑا ہو- ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں الا یہ کہ ورثاء راضی ہو جائیں "۲ حاملہ عورت کی عدت کے بارے میں علماء کے مابین اختلاف ہے- امام جصاص لکھتے ہیں :" واختلفوا في عدة الحامل المتوفّى عنها زوجها على ثلاثة أنحاء فقال على وهى إحدى الروايتين عن ابن عباس "عدتها أبعد الاجلين" و قال عمر و عبدالله و زيد بن ثابت و ابن عباس و ابوهريرة في آخرين "عدتها أن تضع حملها و رُوي عن الحسن أن عدتها أن تضع حملها و تطهر من نفاسها ولا يجوز لها أن تتزوج وهى ترى الدم" " علماء نے بیوہ حاملہ عورت کی عدت کے بارے میں تین طرح کا اختلاف کیا ہے- حضرت علی اور ابن عباس سے بھی ایک روایت اسی طرح کی مروی ہے کہ اس کی عدت دور والی مدت ہوگی یعنی وضع حمل یا چار مہینے اور دس دن میں سے دُور والی مدت - اور حضرت عمر' عبداللہ بن مسعود' زید بن ثابت' ابن عباس( یہ ان سے مروی دوسری روایت ہے) اور ابوہریرہ کہتے ہیں کہ اس کی عدت وضع حمل ہوگی اور حسن بصری سے روایت کیا گیا ہے کہ اس کی عدت وضع ِ حمل اور نفاس سے پاک ہونا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس حالت میں نکاح کرلے کہ اسے نفاس کا خون آرہا ہو "
۳. اللہ تعالی کے ارشاد " ولآمرنّهم فليغيرن خلق الله " کی تفسیر میں تین اقوال نقل کیے ہیں-
اس سے مراد حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینا ہے - یہ تفسیر مجاہد' ضحاک اور سدی سے مروی ہے- اس کی تائید اللہ تعالی کے قول " لا تبدیل لخلق الله ذلك الدين القيم " سے بھی ہوتی ہے-
دوسری تفسیر جو ابن عباس' شھر بن حوشب'عکرمہ'ابو صالح سے مروی ہے کہ اس سے مراد خصّی کرنا ہے اور تیسری تفسیر جو عبداللہ بن مسعود اور حسن بصری سے مروی ہے یہ ہے کہ اس سے مراد وشم ( داغنا) ہے - امام جصاص اس سلسلے میں کثرت سے صحابہ و تابعین کے اقوال نقل کیے ہیں - یہاں ان سب کا استقصاء مقصود نہیں صرف یہ واضح کرنا ہے کہ امام کی تفسیر جمہور کے منہج کے مطابق ہے اور انہوں نے تفسیر بالرائے اور تفسیر بالماثور کے درمیان تطبیق کی کوشش کی ہے -
(جاری)
( شکیل شفائی)
Views : 432