امام ابن جریر طبریؒ
حیات،علمی خدمات اور تفسیری منہج
قسط (۱)
ہر چند دوسری صدی ہجری میں قرآن پاک کی تفسیر کی تدریس رائج تھی اور عام طور پر صِغار تابعین بعض صحابہ یا کِبار تابعین سے علمِ تفسیر حاصل کرتے تھے بایں ہمہ الگ سے قرآن کی تفسیر قواعد و اصولِ تفسیر کی روشنی میں مرتب کرنے کا رواج نہیں تھا۔ اس میں ابھی کچھ عرصہ درکار تھا۔ دوسری صدی اور تیسری صدی کے نصف اول میں تفسیری روایات اور تفسیری اقوال کی تحفیظ و تدریس کا چلن جاری تھا۔ اس دور میں جن بزرگوں کا نام تفسیری اقوال و روایات کے سلسلے میں سامنے آتا ہے ان میں عکرمہ، ضحاک' طاووس،حسن بصری، ابن سیرین، عطاء بن ابی رباح،قتادہ،مکحول،میمون بن مہران،محمد بن کعب القرظی، ابن شہاب الزھری، عمرو بن دینار، السدی الکبیر، ایوب السختیانی، ' زید بن اسلم' اعمش، مقاتل بن حیان،ابن جریج، ابن دایۃ، اوزاعی، ' سفیان ثوری،مالک بن انس، عبدالرحمن بن زید بن اسلم اور ایک خلق کثیر شامل ہے۔ ان میں سے بعض تفسیری اقوال میں کلام کیا گیا ہے اور بعض کو اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے اور بعض تو بالکل ہی مردود قرار پایے۔
سب سے پہلی معلوم تفسیر جو تفسیری اصول و قواعد کے مطابق مرتب و مدون ہوئی وہ امام محمد بن جریر طبری کی تفسیر طبری ہے۔ اس کو انہوں نے تیسری صدی ہجری کے آخری ربع میں تصنیف کیا۔
امام محمد بن جریر طبری آمُل (طبرستان) میں 224 ھ میں پیدا ہوئے۔ وہ صحاح ستہ کے مصنفین کے معاصر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے زمانے کے کِبار علماء سے اکتسابِ علم کیا اور حصولِ علم کی خاطر کثرت سے اسفار کیے - تحصیلِ علم میں کافی مشقتیں جھیلیں۔ امام ذہبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں ”طلب العلم بعد الأربعین و مائتین و أکثر الترحال و لقی نبلاء الرجال ' و کان من أفراد الدہر علماً و ذکاءً و کثرۃ التصانیف۔ قل أن تریٰ العیون مثلہ“(سیر أعلام النبلاء)۔”انہوں نے 240ھ کے بعد تحصیل علم کی،کثرت سے سفر کیے اور اپنے زمانے کے ذہین ترین لوگوں سے ملاقات کی۔ وہ علم و ذہانت اور کثرتِ تصانیف کے لحاظ سے دنیا کے چنندہ افراد میں سے تھے۔آنکھوں نے ان جیسے بہت کم دیکھے ہیں“۔
امام ابن جریر نے اپنے اندر اتنی ساری علمی نسبتیں جمع کی تھیں کہ انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ سلف میں کس پایہ کے لوگ موجود تھے۔ خطیب بغدادی ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔
”محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب،کان أحد أئمۃ العلماء یُحکم بقولہ و یُرجع إلی رأیہ لمعرفتہ و فضلہ،و کان قد جمع من العلوم ما لم یشارکہ فیہ أحد من أہل عصرہ، فکان حافظاً لکتاب اللہ، عارفاً بالقرائات، بصیراً بالمعانی، فقیہاً فی أحکام القرآن، عالماً بالسنن و طرقہا،صحیحہا و سقیمہا و ناسخہا ومنسوخہا،عارفاً باقوال الصحابۃ و التابعین، عارفاً بأیام الناس و أخبارہم، ولہ الکتاب المشہور فی”أخبار الأمم و تاریخہم، ولہ کتاب“ التفسیر، لم یصنف مثلہ،و کتاب سمّاہ”تہذیب الآثار“ لم أر سواہ فی معناہ لٰکن لم یتمہ، ولہ فی أصول الفقہ و فروعہ کتب کثیرۃ من أقاویل الفقہاء و تفردت بمسائل حفظت عنہ“ (سیر)
”محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب،علماء کے امام تھے جن کے قول پر فیصلہ دیا جاتا ہے اور جن کی معرفت و فضل کی بنا پر ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے اندر وہ علوم جمع کیے تھے جن میں ان کے معاصرین میں کوئی ان کا شریک نہ تھا۔ وہ کتاب اللہ کے حافظ تھے،قرأتوں کے عالم تھے،معانی کے بصیر تھے،قرآنی احکامات کے فقیہ تھے، سنت،اس کے طرق، صحیح و سقیم اور ناسخ و منسوخ کے شناور تھے،اقوالِ صحابہ و تابعین سے باخبر تھے، انسانی تاریخ و اخبار سے واقف تھے۔ قوموں کی تاریخ سے متعلق ان کی ایک مشہور کتاب ہے۔ ان کی ایک تفسیر بھی ہے جس کی مثل کوئی دوسری کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔ایک کتاب ”تہذیب الآثار“ہے جس کے ہم معنی میں نے کوئی دوسری کتاب نہیں دیکھی ہے لیکن وہ اسے مکمل نہ کر سکے۔ ان کی فقہی اصول و فروع پر کئی کتابیں ہیں جن میں فقہاء کے اقوال درج کیے گئے ہیں، بعض مسائل میں،جو ان سے محفوظ کیے گئے ہیں، وہ منفرد رائے رکھتے تھے“۔
خطیب کے اس اقتباس پر امام ذہبی نے گرہ لگائی ہیں:
قلت کان ثقۃ،صادقاً ' حافظاً،رأساً فی التفسیر إماماً فی الفقہ و الإجماع و الاختلاف، علّامۃ فی التاریخ و أیام الناس،عارفاً بالقرائات و باللغۃ و غیر ذالک“(أیضاً)
ترجمہ:”وہ معتبر،سچے اور حافظ تھے،تفسیر میں پیشوا تھے، فقہ،اجماع اور اختلاف میں امام تھے،تاریخ اور جنگوں کے بہت زیادہ جانکار تھے،قرأت و لغت وغیرہ کے واقف کار تھے“۔
خطیب بغدادی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ ایک بار دورانِ سفر محمد بن جریر،محمد بن خزیمہ،محمد بن نصر مروزی اور محمد بن ہارون رویانی مصر میں وارد ہوئے۔ ان کا زادِ راہ ختم ہو چکا تھا کھانے کے لیے کچھ نہ بچا تھا جب بھوک نے زیادہ تنگ کیا تو وہ ایک رات کسی مخصوص مقام پر،جہاں وہ اکثر ملتے تھے،جمع ہوگئے۔ انہوں نے اس بات پر قرعہ اندازی کی کہ جس کے نام قرعہ آیے گا وہ دوسرے ساتھیوں کے لیے کھانے کا انتظام کرے گا۔ قرعہ ابن خزیمہ کے نام نکل آیا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے مہلت دو تاآنکہ میں خیر کی دو رکعت نماز پڑھوں چنانچہ وہ نماز کے لیے الگ ہوئے اور یہ لوگ گپ شپ میں مشغول ہوگئے۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی انہوں نے دروازہ کھولا معلوم ہوا کہ حاکمِ مصر نے اپنا خصی کیا ہوا شخص بھیجا ہے وہ اندر آیا اور پوچھا کہ تم میں محمد بن نصر مروزی کون ہے؟ کہا گیا ”یہ“ (انہوں المروزی کی طرف اشارہ کیا) اس پر اس نے انہیں پچاس دینار کی ایک تھیلی دی۔ پھر انہوں نے باری باری باقی تین اصحاب کے بارے میں بھی پوچھا اور انہیں بھی پچاس پچاس دیناروں کی تھیلیاں پیش کیں۔اس کے بعد کہا:
”إن الأمیر کان قائلاً بالأمس،فرآی فی المنام أن المحامد جیاع،قد طووا کشحہم فأنقذ إلیکم ہذہ الصرر و أقسم علیکم اذا نفدت فابعثوا إلی أحدکم“
ترجمہ: کل امیر قیلولہ کررہے تھے تو انہوں نے خواب میں دیکھا محمد (نام کے چار بندے) بھوکے ہیں اور انہوں نے اپنا معاملہ پوشیدہ رکھا ہے تو اُنہوں نے یہ تھیلیاں بھیجیں اور انہیں تم پر تقسیم کیا۔ جب یہ ختم ہوں تو کسی کو میرے پاس بھیج دینا
ابن خزیمہ کہتے ہیں
ما أعلم علی أدیم الأرض أعلم من محمد بن جریر و لقد ظلمہ الحنابلۃ(ترجمہ)مجھے نہیں معلوم روئے زمین پر محمد بن جریر سے زیادہ کوئی جاننے والا ہے البتہ حنابلہ نے ان پر ظلم کیا۔
ابو محمد الفرغانی کہتے ہیں:”کان محمد لا یأخذہ فی اللہ لومۃ لائم مع عظم ما یؤذی فأما أہل الدین والعلم فغیر منکرین علمہ و زہدہ و رفضہ للدنیا و قناعتہ بما یجیۂ من حصۃ خلفہا أبوہ بطبرستان“ (تذکرۃ الحفاظ)(ترجمہ) محمد اللہ کے معاملے میں کسی کی ملامت کی پروا نہ کرتے تھے چاہے انہیں کتنی ہی اذیت اٹھانی پڑتی۔ اہلِ دین و علم ان کے علم،زھد،دنیا سے انقطاع اور طبرستان میں باپ کے چھوڑے ہوئے ترکے کے ایک حصے پر قناعت کے قطعی منکر نہیں“۔
ابو محمد الفرغانی نے امام ابن جریر کی درج ذیل تصنیفات کا تذکرہ کیا ہے
تفسیر،تاریخ،کتاب القرئآت کتاب العدد و التنزیل،کتاب اختلاف العلماء،کتاب تاریخ الرجال، کتاب لطیف القول فی الفقہ،کتاب الخفیف،کتاب التبصیر فی الأصول۔
انہوں نے تہذیب الآثار نام کا ایک عظیم حدیثی موسوعہ مرتب کرنا شروع کیا تھا لیکن اس کی تکمیل سے پہلے ہی ان کی وفات ہوگئی۔ اس میں انہوں نے سیدنا ابوبکر،عشرہ مبشرہ،اہل بیت،موالی (آزاد کردہ) صحابہ اور ابن عباس کی مرویات کا ایک حصہ صحیح سند کے ساتھ نقل کیا تھا۔ حدیث کے طرق' علّتوں پر بحث،فقہی مسائل کا استنباط،علماء کے اختلافات،ان کے دلائل کا استقصاء اور لغوی مباحث سے یہ کتاب لبریز تھی۔ امام ذہبی نے لکھا ہے کہ اگر یہ کتاب مکمل ہوگئی ہوتی تو قریباً سو مجلدات میں آتی۔
امام ابن جریر دس سال تک فقہ شافعی پر عامل رہے پھر بعد میں خود اجتہاد کیا - علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں
أبو جعفر أوثق من نقل التاریخ و فی تفسیرہ ما یدل علیٰ علم غزیر و تحقیق و کان مجتہداً فی أحکام الدین لا یقلد أحداً بل قلدہ بعض الناس و عملوا بأقوالہ و آراۂ“ترجمہ:”ابو جعفر تاریخ نویسی میں معتبر تھے،ان کی تفسیر ان کی علمی وسعت و تحقیق پر دلالت کرتی ہے۔ وہ مجتھد تھے،کسی کی تقلید نہ کرتے تھے بلکہ بعض لوگوں نے ان کے اقوال و آراء کی تقلید کی ہے
ابو محمد الفرغانی کہتے ہیں کہ مجھ سے ہارون بن عبدالرشید نے بیان کیا کہ مجھ سے خود ابن جریر نے کہا:
”أظہرت مذہب الشافعی و اقتدیت بہ عشر سنین و تلقاہ منی ابن بشّار الأحول استاذ ابن سُریج۔ قال ہارون: فلما اتسع علمہ أداہ اجتہادہ و بحثہ إلی ما اختارہ فی کتبہ“(ترجمہ)میں نے مذہبِ شافعی کا اظہار کیا اور دس سال تک اس کی اقتداء کی ' ابن بشار أحول جو کہ ابن سریج کے استاد تھے' نے مجھ سے فقہ شافعی حاصل کی - ہارون کہتے ہیں کہ جب ان کے علم میں وسعت پیدا ہوئی تو انہوں نے ان مسائل میں اجتہاد کیا اور ان پر بحث کی جن کو انہوں نے اپنی کتابوں میں اختیار کیا ہے۔
(۔۔۔جاری۔۔۔)
دوسری قسط میں ان شاء اللہ ابن جریر کے تفسیری منہج پر گفتگو ہوگی
Views : 696