Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

درس مثنوی (6)


  • Aasi Ghulam Nabi
  • Tuesday 15th of February 2022 05:13:47 PM

انسان نما شیطان کی دوستی سے بیکسی بہتر ہے 
 

 مولانا رومی ؒ کو خدائے پاک نے اعلیٰ درجہ کی ذہانت عطا کی تھی۔ وہ کوئی قصہ بیان کرتے ہیں، لیکن مقصد قصہ گوئی نہیں ہوتا ہے، بلکہ سچا ہو یا بناوٹی مولانا اس کے ذیل میں بڑی سبق آموز باتیں اور نتائج اخذ کرتے ہیں ۔ چنانچہ اسی قسم کا ایک قصہ ایک صوفی بزرگ اور دغا باز خادم کا بیان کرتے ہیں۔ لکھا ہے کہ ایک صوفی بزرگ تھا جو اکثر سفر میں رہتا تھا۔ ایک رات یہی صوفی بزرگ ایک خانقاہ میں ٹھہرا۔صوفی بزرگ نے سواری کے جانور کو ایک اصطبل میں باندھ دیا اور خود اپنے دوستوں کے ساتھ چبوترے کے صدر مقام پر بیٹھ گیا اور مراقبے میں مشغو ل ہو گیا۔ مراقبہ کیا ہوتا ہے یہ صوفی بزرگو ں کا ایک ایسا عمل ہوتا ہے جو ذکر و فکر پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب یہ صوفی حضرات مراقبے سے فارغ ہو گئے تو وہ اس مہمان کے لیے کچھ کھانے پینے کی چیزیں لائے۔ اس دوران صوفی کو اپنا سواری کا جانور یاد آیا۔خانقاہ کے خادم سے فرمایا کہ تو اصطبل میں جا اور سواری کے جانور کے لیے کچھ گھاس اور جَو تیار کر۔ خادم نے لاحول ولا قوۃ پڑھ کر کہا کہ جناب یہ کیا کہنے کی بات ہے۔ یہ تو میرا ہمیشہ کا کام ہے۔ عام طور پر یہ کلمات کسی تعجب کے مقام پر دہرائے جاتے ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اطمینان رکھئے۔ یہ کام میرے ذمہ ہے اور اس کا انجام دینا میرا فرضِ منصبی ہے۔ صوفی بزرگ نے دوسری دفعہ پھر فرمایا کہ جَو کو پہلے بِھگو لینا کیوں کہ یہ بوڑھا ہے اور اس کے دانت کمزور ہیں۔ مکار خادم نے پھر لا حول و لا قوۃ پڑھ کر کہا کہ جناب آپ یہ کیا فرماتے ہیں،میں اس کام میں اس قدر ماہر ہوں کہ یہ باتیں لوگ مجھ سے سیکھ لیتے ہیں۔ صوفی بزرگ نے تیسری بات بھی فرما دی کہ سواری کے اس جانور کا پالان بھی اُتار دینا اور پالان کی وجہ سے جو زخم اس کی کمر پر پڑ گئے ہیں ان زخموں پر منبل نام کی دوا مَل لینا۔ خادم نے پھر لاحول ولا قوۃ پڑھ کر کہا کہ حضرت حکمت کی ان باتوں کو چھوڑ دیجئے۔ یہاں آپ جیسے ہزاروں مہمان آئے ہیں۔ وہ سب مہمان یہاں سے خوش و خرم ہو کر نکلے،کیوں کہ مہمان کوئی بھی ہو ہمار ی جان ہوتا ہے۔صوفی نے خادم کو ایک اور نصیحت کی کہ اس جانور کو ذرا نیم گرم پانی پلانا۔ مکار خادم  نے پھر  لا حول و لا قوۃ پڑھ کر کہا کہ جناب آپ یہ باتیں فرما کر مجھے زیادہ شرمندہ نہ کریں۔ صوفی نے پھر ناصحانہ اندازمیں فرمایا کہ جو جَوْ آپ جانور کو کِھلانے جارہے ہیں اُس میں گھاس ذرا کم مِلانا۔ خادم نے پھر  لا حول و لا قوۃ پڑھ کر کہا کہ جناب آپ ذرا بات کو مختصر کیجئے۔ صوفی نے کہا کہ ذرا اُ س کا تھان کنکر اور لید سے صاف کر لینا۔ اور اگر گیلا ہو تو خشک مٹی ڈال لینا۔ خادم نے کہا کہ اے بزرگ آپ بھی ذرا لاحول پڑھ لیجئے اور اپنے اس لائق قاصد سے کم باتیں کیجئے۔ بزرگ نے از راہِ شفقت پھر کہا کہ کھریرے کو گدھے کے کمر پر پھیر لینا۔ خادم نے  لا حول و لا قوۃ پڑھ کر کہا کہ اے باوا! ذرا شرم کر۔ اسی طرح بزرگ نے سواری کے جانور کے متعلق اور بھی احتیاط کی کئی باتیں ارشاد فرمائیں اور یہ اِدھر سے  لا حول و لا قوۃ پڑھ کربزرگ کی باتو ں کا اند ر ہی اندر سے مذاق اڑاتا تھا۔ صوفی کے جسم کے اوپر بھی سفر کی وجہ سے تھکاوٹ کا غلبہ تھا اور غفلت کی نیندنے اُ س پر غلبہ کیا اور وہ سو گیا۔ صوفی بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ اس کا گدھا ایک بھیڑئیے کے پنجے میں ہے اور وہ بھیڑیا اُس گدھے کی کمر اور ران کے ٹکڑے اُڑا رہا ہے۔ خواب میں ہی صوفی تعجب سے فریاد کرنے لگاکہ وہ مہربان نو کر کہاں ہے؟ اُس نے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ راستہ میں چلتے ہوئے اُس کا گدھا کبھی کسی کنویں میں اور کسی گڈھے میں گرتا ہے۔ اپنے گدھے کا یہ حال دیکھ کر خواب میں ہی سورہ الحمدللہ اور سورہ القارعہ پڑھتا تھا۔ خواب سے بیدار ہو کر کہنے لگا کہ کیا تدیبر اختیار کی جائے،کیوں کہ میرے دوست بھی تھکے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی جگہ پر چلے گئے  ہیں۔ دروازہ بھی بند کر لیا گیا ہے۔ اسی پریشانی کے عالم میں پھر کہتا کہ ہائے تعجب، وہ نالایق نوکرجس کو میں نے ہم پیالہ وہم نوالہ بنایا تھا اور ہمیشہ اُس کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آتا تھا،پھر کیا وجہ ہے کہ وہ میرے ساتھ یہ برعکس معاملہ کرتا ہے۔۔کبھی اس کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوجاتے کہ دشمنی کے لیے بھی کوئی سبب ہونا چاہیے۔بِلا سبب دشمنی کی آخر کیا وجہ ہے؟ وہ تو میرا ہم جنس تھا اور ہم جنس ہونا وفا داری سکھاتا ہے۔ اپنے ڈراونے خواب کی تعبیر  اُس صوفی کی سمجھ میں یہی آتی تھی کہ خادم نے اُس کے ساتھ بے وفائی کی ہے۔اسی پیچ و تاب میں اُسکے مہنہ سے یہ بات نکلی کہ آدم ؑنے شیطان کو کیا تکلیف پہنچائی تھی کہ وہ بِلا وجہ آدم ؑ کا دشمن بن گیا۔ اسی طرح انسان نے کب سانپ اور بچھو کو تکلیف پہنچائی تھی کہ یہ دونوں زہریلے جانور انسان کی تکلیف اور موت کے چاہنے والے ہیں۔ دراصل بھیڑئیے کی اصل خاصیت پھاڑنا ہی ہے اسی طرح انسان بھی ذاتی حسد کی وجہ دوسرے کے ساتھ بِلا وجہ سے بُرائی کرتا ہے۔ کبھی خود کو نصیحت کرتا کہ غالباً یہ میری اُسکے ساتھ بد گمانی ہے،جبکہ بد گمانی ایک بُری بات ہے۔ کبھی خود کو ہی سمجھاتا کہ میری یہ بدگمانی غالباً میری پختہ کاری کی دلیل ہے، کیوں کہ جو ہر ایک کے ساتھ اندھا بن کر نیک گمان ہی رکھتا ہے وہ دوسروں کی تکلیف رسانی سے کب بچتا ہے۔ غرض صوفی ایک طرف سے اس قسم کے وسوسوں میں مبتلا تھا اور دوسری طرف خادم کی دھوکہ دہی سے بیچاراگدھا پتھر اور مٹی میں ٹیڑھے پالان کے ساتھ، راستہ کا تھکا ماندہ تمام رات بغیر گھاس کے کبھی جان کنی میں اور کبھی ہلاکت میں مبتلاء تھا۔ گدھا رات کو خدا کی بارگاہ میں فریاد کرتا تھا کہ اے اللہ بڑی مہربانی ہوگی اگر مجھے جَوْنہ سہی ایک مٹھی گھاس مل جاتی۔
    جب صبح ہوئی، خادم آیا،گدھے کی کمر پر پالان کَس دیا۔ گدھے بیچنے والوں کی طرح دو تین بار چوٹیں لگائیں اور ان چوٹوں کی وجہ سے گدھا کودنے لگا۔ اُس نے اُس گدھے کے ساتھ وہ کیا جو کتے کے لایق ہوتا ہے۔ بیچارے گدھے کے پاس وہ زبان کہاں تھی کہ وہ اپنی حالت بیان کرتا۔ گدھے کی یہ حالت دیکھ کر قافلہ والوں کو یہ گمان ہوا کہ صوفی کا گدھابھوکا نہیں، بلکہ بیمار ہے۔ جب صوفی گدھے پر سوار ہوا اور روانہ ہوا۔ اُس وقت گدھا مہنہ کے بل گرنے لگا۔ لوگ اُس کو گرنے کے بعد اُٹھالیتے لیکن سبھوں نے اس کو بیمار سمجھا۔ کوئی اس کا کان سخت مروڑتا کوئی دوسرا اُس کے قد م کے نیچے کنکر تلاش کرتا، آخر پر قافلہ والوں نے صوفی ہی سے پوچھا کہ جناب آپ کل اس گدھے کے متعلق فرماتے تھے کہ یہ مضبوط ہے۔ صوفی بزرگ نے فرمایا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس گدھے نے رات کو لاحول کھائی ہے وہ اس طریقہ کے عِلاوہ راستہ طے نہیں کرسکتا ہے۔ چونکہ رات کو گدھے کی خوراک لاحول تھی تو ظاہر ہے کہ رات کو تسبیح خوان تھا اور اب دن کو سجدے میں ہے۔یہ تشریح صوفی نے اس لیے کی کیوں کہ خادم نے صوفی کی ہر پوچھ گچھ پر لاحول پڑھ کر صوفی کو خاموش کیا تھا اب اس پورے قصے کو بیان فرما کر مولانا رومی ؒ بطور نصیحت یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ 

چون نہ ندارد کس غم ِتو ممتحن 

       خویش کارِ خویش باید ن ساختن 
آدمی خوارند اغلب مَردماں 

     ازسلام علیک شاں کم جواماں 
درزمین مَردماں خانہ مکُن

        کارِ خود کُن کارِ بیگانہ مکُن
ترجمہ:َ اے مبتلا! جب کسی کو تیری فکر نہ ہو۔ اپنا کام خود کر لینا چاہیے۔ اکثر لوگ مردمِ خور ہیں۔ اُن کی سلام علیک سے مطمئن نہ ہو۔ دوسروں کی زمین میں گھر نہ بنا۔ اپنے کام میں لگ جا۔ بیگانے کے کام کو چھوڑ۔
    خلاصہ اس قصے کا یہ ہے کہ بہت سارے لوگ ریاکار ہوتے ہیں، لیکن بظاہر مومنوں کی شکل وصورت اختیار کر کے اندر سے خباثت سے بھرے ہوتے ہیں۔ دھوکہ دہی اُن کا شعار ہوتا ہے۔لہٰذا ایک مومنِ صادق کو ہمیشہ چوکنا رہنا چاہئے۔اور دھوکہ بازوں کے خوبصورت الفاظ کے دھوکہ میں نہ آنا چاہئے۔اپنی ذمہ داریوں کو خود سنبھالنا چاہیے۔ یہی اصلی سمجھداری ہے۔ 

 


Views : 574

Leave a Comment