(نوٹ)
مثنوی شریف کا بہترین اردو ترجمہ قاضی سجاد حسین صاحب ؒ نے کیا ہے لہٰذا درس مثنوی کے دوران ہم ان کا ہی مسنتند اور صحیح ترجمہ استعمال میں لائیں گے۔لیکن تشریح میں انہوں نے نہایت ہی اختصار سے کام لیا ہے اور فارسی زبان سے دوری کی وجہ سے کئی باتیں ناظرین کے سامنے پردہئ خفاء میں رہ جاتی ہیں جن کی تشریح کرنا ضروری بن جاتا ہے اسی صورت کے پیش نظر ہم درس مثنوی کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔
درس نمبر ۱
حواس ظاہری وحواس باطنی
پنچ حسّے ہست جز ایں پنچ حس
آں چو زرِّ سرخ و ایں حسہا چو مس
اندراں بازار کاہل محشر اند
حس مس را چوں حسِّ زر کے خرند
حس ابداں قوتِ ظلمت فی خورد
حسِّ جان از آفتابے می چرد
(ترجمہ) ان پانچ حواس کے علاوہ پانچ حس اور ہیں۔
وہ سرخ سونے کی طرح ہیں اور یہ حواس تانبے کی طرح ہیں۔
جس بازار میں اہل محشر ہیں۔تانبے کے حس سونے کی طرح کب خریدتے ہیں؟
بدنوں کی حس ظلمت سے روزی حاصل کرتی ہے روح کی حس آفتاب سے غذا حاصل کرتی ہے۔
(تشریح)
مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں کہ انسان اور حیوان دونوں کو ظاہری پانچ حواس ہوتے ہیں اور ان پانچ حواس کا ہونا ضروری بھی ہے اور یہ سب حواس دونوں میں پائے جاتے ہیں ۔یہ پانچ حواس اس طرح ہیں:
دیکھنے کی قوت، سننے کی قوت، سونگھنے کی قوت،چکھنے کی قوت،محسوس کرنے کی قوت
دیکھنے کا تعلق آنکھ کے ساتھ ہے۔سننے کا تعلق کانوں کے ساتھ ہے۔سونگھنے کا تعلق انسان کی ناک کے ساتھ ہے۔چکھنے کا تعلق انسان کی زبان کے ساتھ ہے۔ محسوس کرنے کا تعلق انسان کی کھال کے ساتھ ہے۔ دنیاوی زندگی کا تعلق انسان کے ان پانچ حواس کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ اس لیے کوئی بھی دنیاوی معاہدہ کرتے وقت لکھا جاتا ہے کہ یہ شخص اپنے پانچ حواس کے ساتھ اس معاہدہ پر دستخط کرتا ہے اور ظاہر بات ہے کہ ان پانچ حو اس میں اگر انسان کا کوئی حس غائب ہوگا تو وہ کسی معاہدہ کو اس کی تمام تر حقیقت کے ساتھ سمجھنے سے قاصر رہے گا۔
مثلاً اگر وہ ان پڑھ اور بہرا ہوگا تو کسی بات کا سمجھنا اس کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ یہ بات تو ہر انسان کے لیے سمجھنا آسان ہے۔لیکن مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں کہ ان ظاہری حواس کے علاوہ انسان اپنے پاس اور پانچ حواس بھی رکھتا ہے جنہیں ترقی دینا انسان کے لیے مجاھدے اور صحیح رہبری پر منحصر ہے۔ایک مثال سے اس بات کو سمجھا جا سکتاہے۔مثلاً اگر ایک گڑھا کھودا جائے اور اس میں پانی بھر دیا جائے تو ظاہر ہے کہ اس پانی کو ہم زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رکھ سکتے۔کچھ پانی یا تو یونہی زمین کے اندر جذب ہو جائے گا یا کچھ استعمال میں لاکر ختم ہو جائے گا یا کچھ بھاپ بن کرہوا میں منتشر ہوگا۔ پانی سے مستفید ہونے کا ایک اور طریقہ بھی ہے جو پائیدار بھی ہے اور ہمیشہ جاری رہنے والا بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسی گڑھے پر محنت کر کے نیچے تک کھودا جائے تو زمین کے اندر سے اس میں پانی جمع ہو جانا شروع ہو جائے گا اور وہ پانی پائیدار ہوگا اور جتنا نکالا جائے گا اتنا ہی زیادہ صاف و شفاف پانی سے دوبارہ یہ کنواں بھر جائے گا۔۔۔
باقی آئندہ
یار زندہ صحبت باقی
Views : 541