قسط سوم
مغل روڈ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس راستے سے مغل سلاطین وارد کشمیرہوتے تھے اور مختلف جگہوں پر سرائیں قائم کیں علی سرائے آج بھی اپنے آب و تاب کے ساتھ موجود ہے لیکن حکمرانوں کی عدم توجہی کی داستان سنارہی ہے چند ثانیوں کیلئے ہماری گاڑی نے راحت کی سانس لی اورہم کھلی فضا میں قدرت کی کاریگری اور مغلوں کے فن تعمیر سے محظو ظ ہوگئے۔ اسی راستے پر ایک اور سرائے سکھ سرائے کے نام سے موسوم ہے ہم کشمیری میں راحت اور آرام کیلئے سوکھ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اردو میں سکھ چین بھی مستعمل ہے اور اس سرائے کی وجہ تسمیہ یہی ہے کہ یہاں پر مغل سلاطین اپنی لشکر اور بقیہ عملے کے ساتھ پڑاو ڈال کر قدرے سستاتے تھے۔وادی کے اس طرف چونکہ برفباری کا زیادہ امکان اور خطرہ رہتا ہے اس لئے یہ سرائیں سردی اور یخ سے بچنے کا فائدہ بھی دیتی تھیں۔
باتوں باتوں میں ہم پیر گلی پہنچ گئے راجوری اور پونچھ کو کشمیر سے جوڑنے والا یہ کم فاصلے کا راستہ ھے اور قدیم سے دو خطوں کے درمیان اتصال کا ذریعہ رہا ہے مویشی پالنے کیلئے خطہ پیرپنچال سے ہمارے گوجر بکروال بردراں جنکی کثیر آبادی اسی خطہ میں موجود ہے اپنے مویشیوں کو خطہ کشمیر کے چراگاہوں میں ایام گرمی میں اس طرف لاتے تھے،گویا کہ(لایلف قریش ایلافھم رحلۃالتشتاء و الصیف) کی عملی تعبیر ہے۔پیر گلی ایک سرحد ہے جو شوپیاں اور پونچھ کے درمیان واقع ہے۔
معروف سیاح برنیر رقمطراز ھے کہ اس گلی کی اونچائی پر ایک ہندو پجاری رہاکرتا تھا اور شیخ نورالدین نورانیؒ کو اسکی اطلاع ہوئی تو وہ دعوت دین کیلئے گلی تک گئے اورہندو پجاری سے مباحثہ کیا اسلام کی حقانیت سے متاثرہوکر اور شیخ ؒ کی دعوت میں قوت کے نتیجے میں ہندوپجاری شیخؒ کے دست حق پرست پر مسلمان ھوگئے اور شیخ احمد کریم ؒسے موسو م ہوئے اگرچہ شیخ کے مدفن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کی وہاں پر کوئی مدفن نہیں البتہ اس چار دیواری کے عقب میں کئی راہرو گوجر بکروال مدفون ہیں۔گرمیوں میں موسم نہایت سہانا اور سردیوں کی آمد سے موسم انتھائی سرد ھوجاتا ہے اور کڑاکے کی سردی پڑتی ہے اور کسی بھی وقت برفباری اور طوفان باد و باراں کا قوی خطرہ رہتاہے۔ اس گلی کے نواح میں چند معروف تالاب موجود ہیں جنھیں کشمیری میں ”سر“سے موسوم کیا جاتا ہے ان میں سکھ سر، نین سر وغیرہ بڑے آبی ذخیرے اپنے فطری حسن کی جلوہ نمائی کرتے ہیں۔
شوپیاں سے پیر گلی تک مغل روڑ پر گاڑی فراز کی طرف چلتی ہے اور پیر گلی کے بعد نشیب کی طرف چلتی ہے پونچھ اور راجوری کی طرف جاتے ہوئے اگرچہ پہاڑوں سے پسیاں آنے کا خطرہ رہتا ہے لیکن بیکن عملہ ہمہ وقت تیار رہتاہے اور قوی ھیکل مشینیں برسر کار ہیں اس طرف پوشیانہ تک برفباری کا امکان اور خطرہ رہتا ہے بلکہ بہت زیادہ رہتا ہے لیکن پوشیانہ سے آگے اسکا بھت کم امکان ہوتا ہے۔ تاریخ کے صفحات میں اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ منگول اور تاتار کے خاندان سے ایک ذو الچو یا ذولقدر خان نام کا ایک حملہ آور کشمیر کی طرف بغرض ملک گیری پچاس ھزار فوج لے کر وادی میں داخل ہوااور پچاس ہزار کے قریب لوگوں کو گرفتار کرکے لے گیا اس ظلم سے اسوقت وہی لوگ بچ پائے جو جنگلات کی طرف رخ کرگئے۔پیر گلی پہنچ کر ذولقدرخان معہ فوج و گرفتار شدہ گاں ایک عذاب کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے جو برفانی طوفان و سخت باد و بہاراں کی صورت میں نمودارہوا۔
۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔
Views : 406