Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

سفرنامہ خطہ پیر پنچال(قسط دوم) 


  • Molana Ghulam Mohammad Paray
  • Sunday 2nd of July 2023 09:22:49 AM

(قسط دوم) 
گذشتہ سے پیوستہ 
اور اس علاقے کا ایک المیہ بھی ہے کہ یہاں کی پیدوار
مولوی عبد اللہ وکیل ہیں جو قادیانیوں کے لاہوری گروپ سے تعلق رکھتے تھے انکے فرزند شمیم احمد شمیم (ایڈیٹر اخبارآئینہ سرینگر) بھی قادیانیت سے متاثر تھے۔ مولانا سید حسین شاہ صاحب مکہ میں پیدا ہوئے اور  نوشہر سرینگر کے بطخ پورہ میں سکونت پذیر ہوئے  چونکہ مولانا بطخ پوری تحریک وہابیت  سے متاثر تھے اور انھی نظریات کی ترویج میں شدت کے ساتھ مصروف عمل تھے، میر واعظان جموں و کشمیر کے ساتھ انکا رشتہ داری کا تعلق تھا لیکن انکے ساتھ نظریات کا اختلاف تھا۔ وھابی نظریات کی پاداش میں انھیں شہر بدر کردیا گیا اور شوپیاں میں سکونت پذیر ہوئے بطخو صاحب ؒ  نے خفیہ طریقے پر اپنے نظریات کی اشاعت و ترویج جاری رکھی مولانا محمد انور بٹ صاحب شوپیانی ؒ  ان کے نظریات سے ہم آھنگ ہوگئے۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ مولوی  محمد انور بٹ صاحب شوپیانی ؒکے آباء اصلاً مائسمہ سرینگر سے تھے اور دو تین پیڑیاں اوپر جاکر غیر مسلم تھے۔مولانا محمد انور سخت جان آدمی تھے اور زاہدانہ زندگی گزارتے تھے انھوں نے کشمیر، جموں اور لداخ کے مختلف علاقوں کے پا پیادہ اسفار کئے اور مولانا حسین بطخو صاحب ؒ سے اخذ کردہ نظریات کی حتی الامکان ترویج فرمائی۔ انکی ایک منکوحہ ہمارے پڑوس کی بستی رنبیرگڈھ سے تھی جنکے بطن سے مولانا عبد الغنی شوپیانی رح پیدا ہوئے اور وہ اپنے والد صاحب مرحوم کے مشن میں معاون ثابت ہوئے انکی ذریت میں کئی اصحاب علم ہیں مولوی صاحب ایک شاعر کی حیثیت سے کشمیر کے ادبی حلقوں میں ایک ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔انکی کئی منظوم کتابیں اسلامی شاعری کے حوالے سے ایک خاص مقام رکھتی ہیں گلدستہ انور، تعلیم سنت اور بشارت المؤمنین جیسی منظوم کتابیں انکے آثار میں ایک قیمتی سرمایہ  ہے طبقہ اہلحدیث باصطلاح جدید میں مولانا انور بٹ صاحب شوپیانی ؒکے منظوم اشعار انکے علماء کے زباں زد ہیں۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر  ہے کہ مولوی محمد انور بٹ صاحب شوپیانی ؒ کو بعض لوگ امام العصر رئیس المحدیثین پاسبان ختم نبوت بحر العلوم علامہ انور شاہؒ کے ساتھ مماثلت پیدا کرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں جو ایک بچگانہ حرکت ہے اور فرق مراتب کے ساتھ بڑی زیادتی ہے کیونکہ علامہ کشمیریؒ  شہرت علم اور ختم نبوت کے پاسبان کی حیثیت سے اقطار عالم میں معروف ہیں اور ارباب کمال آج بھی انکے آثار علم سے مستفیدہوتے ہیں۔ہمیں مولانا محمد انور بٹ صاحب شوپیانیؒ کا بڑا احترام ہے لیکن فرق مراتب کو ملحوظ نہ رکھنا بہت خطرناک ہے۔مولوی صاحب نے طویل عمر پائی اور  اپنے اشعار میں قبر پرستی بدعات اور دیگر  رسوم کی خوب خبر لی ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پر شوپیاں کی تاریخ کا ذکر قدرے طویل ہوگیا۔سفر کی روداد جاری رکھتے ہوئے محترم قارئین کوہم پھر پُر لطف ساعات میں لئے چلتے ہیں۔
محترم وانی صاحب کے ایک گہرے دوست اور تبلیغی ساتھی
پروفیسر فاروق احمد صاحب شوپیاں کے ساتھ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت  انکے در دولت پر وارد ہوگئے پروفیسر موصوف نہایت خلیق اور اور منکسر المزاج ہیں اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔   ’رنب آرہ‘    نام کے دریا کے کنارے ایک صحت افزا مقام پر اور شوپیاں اسٹیڈیم کے جوار میں  پروفیسر صاحب کی رہائش گاہ واقع ہے۔ چائے نمکین سے تواضع ہوئی اور قصر نماز ادا کرکے سستانے لگے کہ برتنوں کی ٹھن ٹھن سے عندیہ ملا کہ غذا آرھی ہے،  دیکھتے دیکھتے  مختلف اقسام کی ضیافتیں دسترخوان پر لگی ہوئی ھمارا انتظار کررہی تھیں۔ جتنا نصیب میں تھا کھا لیا اور بعد چندے بستر راحت میں چلے گئے کچھ باتیں کرکے محو خواب ہوگئے۔ حضرت  اذان فجر سے  پہلے تہجد سے فارغ ہوگئے تھے کہ اذانوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہوگیا اور وضو کرکے فجر کی نماز ادا کی ،فللہ الحمد۔نمکین چائے نوش کی اور شوپیاں کی معروف باقر خوانی سے لذت اندوز ہوگئے پروفیسر صاحب کے ساتھ رات گئے تک بھی اور بوقت صبح بھی گفتگو سے بہرہ مند ہوئے پروفیسر صاحب مذہبی قسم کے آدمی ہیں اسلئے یہ قافلہ ذھنی کوفت سے بچ گیا اور دینی گفتگو سے سکون محسوس کیا۔صبح آٹھ بجے ہمارا یہ قافلہ علم شوپیاں سے نکل کر مغل روڈ سے آشنا ہوا،ا پرپیچ پہاڑی راستے سے ھم محو سفر رہے اور عاشق صاحب ڈرائیونگ کے ہنرر سے پوری طرح باخبرہیں پر لطف سفر کرتے ہوئے ہمارا قافلہ پیچیدہ راستے سے بطرف پونچھ محو سفر رہا۔ہماری گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی ہیر پورہ سے دوبی جن’ززہ نار‘ کو طے کرتے ہوئی علی آباد پہنچ گئی یہ بات خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ ہیرپورہ کی بستی مغل روڈ پروادی کی آخری سرحد پر واقع ہے ۔دوبی جن میں ایک ٹیلے پر ہمارے قافلے نے ایک فوجی پکٹ کا بھی نظارہ کیا پیر گلی کی طرف جاتے ہوئے علی سرائے کو پہنچے،علی سرائے کوچھوڑ کر ایک پل بنام لال غلام کے دیدار ہوئے اس کی تاریخ یہ بتائی جاتی ہے کہ مغل لشکر میں لال غلام نام کے دو وزراء یا دانشمند موجود تھے جو بطور قیافہ شناس کام کرتے تھے، راستہ تلاش کرت ہوئے انھوں نے ایک پیسہ دھاگے سے باندھ کر اوپر سے نیچے کی طرف پھینکاجس کی نیچے پہنچ کر آواز سے راستے کا پتہ لگایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔۔

 


Views : 513

Admin

ہم امید کرتے ہیں کہ قارئین اس سفر نامے کو پڑھنے کے بعد اپنے تاثرات ضرور کمنٹ بکس میں قلمبند کریں گے

2023-07-02 19:45:17


Admin

ہم امید کرتے ہیں کہ قارئین اس سفر نامے کو پڑھنے کے بعد اپنے تاثرات ضرور کمنٹ بکس میں قلمبند کریں گے

2023-07-02 14:57:31


Leave a Comment