Latest Notifications : 
    داعی توحید نمبر

صوفیاء کی شان میں بے ادبی کرنا گمراہی ہے


  • سالک بلال
  • Sunday 7th of January 2024 07:16:32 PM

صوفیاء کی بے ادبی گمراہی ہے 
تعلیم یافتہ نوجوانوں میں تحقیق کا بڑھتا رحجان ایک خوش آئند بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کو کافی صلاحیتوں سے نوازا ہے وہیں ایک صلاحیت جو انسان کو دوسرے حیوانوں سے ممتاز بنا دیتی ہے وہ عقل ہے۔یہی وہ نعمت ہے جس سے آدمی حق اور ناحق میں امتیاز کرتا ہے۔اور اسی قوت تعقل کو بروئے کار لاکراشیاء کی حقیقت تک پہنچنے کے عمل میں تفتیش کرنے کا نام تحقیق ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا منقول ہے کہ اللھم ارنا الحقائق الشیاء کما ھی۔یعنی اے اللہ مجھے اشیاء کی حقیقت سے آگاہ کیجیے جیسے کہ وہ ہیں۔تحقیق کا کام بہت مشکل کام  ہوتا ہے اس کے لیے ویسی صلاحیت ہونی چاہیے جس سے آدمی حق اور باطل میں تمیز کر سکے۔ اس صلاحیت کو حاصل کرنے کے لیے آدمی کو بہت سارے علوم کا اکتساب کرنا پڑتا ہے۔ اکتساب علوم کے بغیر دینی معاملات میں اپنی رائے زنی کرنا بہت سارے مفاسد کو جنم دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آئے دن سوشل میڈیا پر  ایسے ویڈیوز دیکھنے پڑتے ہیں جن میں کچھ نیم محقق حضرات امت کے بڑے بڑے علماء،اتقیاء اور داعیوں پر طنز کستے نظر آرہے ہیں۔وہ خود کومحقق سمجھتے ہیں جبکہ ان کا تقریری لہجہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ  ہلدی کی ایک گانٹھ ملنے کے بعد وہ پنساری بن بیٹھے ہیں۔بقول حالیؔ
مل گئی جس کو گانٹھ ہلدی کی 
اس نے سمجھا کی میں ہوں پنساری
محقق کبھی مکتبی یا مسلکی اختلاف کی وجہ سے عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتا ہے۔ فکری اختلاف کو ایک طرف چھوڑ کر وہ حقائق کا برملا اعتراف کرنا اپنا منصبی فریضہ سمجھتا ہے۔ وہ اپنے معتقدین کو اپنی مخالف فکر  کے خلاف کبھی نہیں بھڑکاتا ہے بلکہ ان کے ساتھ وہی بات کرتا ہے جو ان کے لیے آخرت  کے اعتبار سے فائدہ مند ہو۔ کیونکہ محقق کی تحقیق کا تعلق خواص کے ساتھ ہوتا ہے نہ کہ عوام کے ساتھ، تکلم الناس علی عقولھم  اس باب میں ایک رہنما اصول ہے۔ مولانا تھانوی صاحب ؒ کے سامنے کانپور میں ایک عقیدتمند نے اہل بدعت کی برائی کرنا شروع کی۔تھانوی صاحب ؒ نے ان کی طرف سے تاویلات کرنا شروع کیں۔پھر اس نے غیر مقلد کی برائیاں کرنا شروع کیں تھانوی صاحب ؒ نے ان کی طرف سے تاویلات کرنا شروع کیں۔اس نے حضرت ؒ سے متحیر ہو کر پوچھا،آخر آپ کا مذہب کیا ہے؟ حضرت حکیم الامت نے جواب دیا کہ میرا مذھب قرآن کی یہ آیت ہے: کونوا قوامین للہ شہداء بالقسط ولا یجرمنکم شنآن قومٍ علی ألا تعدلو، اعدلو ا ھو اقرب للتقویٰ ترجمہ کسی قوم کا غصہ تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو بلکہ تمہیں انصاف کرنا چاہیے،وہی تقوی کے قریب ہے۔
اس وقت امت مسلمہ کے نوجوان طبقہ کی ذہن سازی کچھ اس طرح کی جارہی ہے کہ برصغیر میں رائج بدعات اور شرکیات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں صوفیاء  جیسے شاہ ہمدان ؒ اور معین الدین چشتی ؒ،خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ جیسے مبلغین اور داعیوں کی وجہ سے اسلام منصۂ شہود پہ آگیا۔ اور انہوں نے کچھ اس طرح سے یہاں کی عوام میں دین کی اشاعت کی کہ وہ بدعات کو دین سمجھنے لگے۔ اس قسم کی ذہن سازی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان بزرگوں کی تنقیص اب سوشل میڈیا پر کھلے انداز میں ہو رہی ہے۔ ان کا نام بہت ہلکے انداز میں لیاجارہا ہے مثلا کہا جاتا ہے کہ ”یہ لوگ صوفی تھے،انکے عقیدے میں خطا ہوسکتی تھی لیکن کبھی کبھار اللہ تعالی ان کے ذریعے سے نوازے کسی کو کفر سے نکالتا ہے اور بدعت مین داخل کرتا ہے۔۔“اس قسم سے اپنے اسلاف کا نام ہلکے انداز میں لینا  قطاً دینی اقدار کی ترجمانی نہیں کرتا۔ حالانکہ یہ وہ اسلاف ہیں جن کا تعلق عقائد کے باب میں یا تو اشعریہ مکتب فکر سے ہے یا ماتریدیہ۔ ان دونوں مکاتب کے ائمہ کا طرہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی اور غیر اسلامی عقائد کی تنقیح کر کے شرکیات کے تمام دروازے بند کردیے۔ شاہ ہمدان کا عقیدہ توحید اس کی اوراد فتحیہ کو پڑھ کر بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں اللہ تعالی کی وحدانیت اور صفات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ شرک فی الذات اور شرک فی الصفات کے تمام دروازے بند کیے گئے ہیں۔ صوفیاء کا امام جنید ؒ ہے وہ توحید کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ”التوحید افراد القدیم عن المحدث“ یعنی توحید یہ ہے کہ قدیم واجب الوجود ہستی کو محدث یعنی ممکن الوجود ہستی سے جدا کر دیا جائے۔اس بلیغ جملے کا مطلب یہ کہ اللہ کی ذات ازلی کو ذوات حادثہ (اشیائے مخلوق)سے متمیز کیا جائے۔اللہ تعالی کی صفات ازلی کو اشیائے کائنات کی صفات سے متمیز کیا جائے۔صرف اللہ تعالی کی صفات کو مطمح نظر بنایا جائے اور مخلوقات کی صفات عارضی کا ابطال قال و حال سے کیا جائے اور اس طرح یہ ثابت کیا جائے کہ اللہ کی ذات و صفات کے علاوہ کوئی شئے موجود نہیں۔ اسی طرح اللہ تعالی کے افعال کو اشیائے کائنات  کے افعال سے متمیز کیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ صرف وہی فاعل حقیقی ہے اور اس کے سوا اس کائنات میں کوئی فاعل حقیقی نہیں۔ انسان کے افعال اللہ کی مشئیت کے محتاج ہیں اللہ اگر بندوں کو فعل کی قدرت،طاقت اور قوت عطا نہ کرے تو کوئی شخص کوئی فعل یا حرکت نہیں کرسکتا۔ اسی طرح ہجویری ؒ نے  کشف المحجوب  میں یہ لکھا ہے  کہ”واضح ہو کہ اللہ ازلی ہے اور تم سب فانی اور عارضی مظاہر ہو،تمہاری ذات کو خدا کی ذات سے کوئی نسبت یا علاقہ نہیں ہے اور نہ تمہاری صفات اور اس کی صفات میں کوئی مشارکت یا مماثلت ہے،اور نہ قدیم اور حادث (واجب اور ممکن) میں کوئی یگانگت یا علاقہ ہے۔“(کشف المحجوب صفحہ ۱۷۲)یہ تعریف بھی حضرت  جنید ؒ کی تعریف سے ملتی جلتی ہے۔ حضرت جنید ؒ کی اس تعریف  کی تصویب و تصدیق امام قشیری ؒ نے  اپنے رسالہ میں کی ہے ۔علامہ تھانوی ؒ نے بھی توحید کی تعریف میں جنید ہی کی پیش کردہ تعریف کو اختیار کیا ہے۔پروفیسریوسف سلیم چشتی  نے منہاج السنہ کے حوالے سے لکھا کہ کہ امام ابن تیمیہ ؒ (جس کو  غیر مقلدین حضرات اپنا امام مانتے ہیں)نے بھی اس تعریف کو پسند فرمایا ہے۔ (منہاج السنہ جلد ۳ ص۵۸) معلوم ہوا کہ صوفیا ء توحید کے باب میں نہایت راسخ ہوتے تھے۔لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ لوگوں کو شرک و بدعت کی تعلیم دیں۔ صوفیا ء پر اس قسم کا الزام لگانا نہایت ہی غلط بات ہے۔صوفیا ء کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے ظاہر و باطن کو اللہ کے لیے خالص کریں۔صوفیاء نے ہر قسم کی بدعت کی مخالفت کی ہے وہ بدعت کو مکروہ سمجھتے تھے۔ اس ضمن میں چند ایک صوفیاء کے اقوال درج کرنا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ صوفیاء پر اس قسم کا اتہام باندھنے والے احباب اپنے موقف سے رجوع کریں۔ حضرت حمید الدین ناگوری ؒ فرماتے ہیں ”فھم الذین یدعون الانباء و الاولیاء عند الحوائج والمصائب باعتقاد ان ارواحھم حاضرۃ تسمع النداء ع تعلم الحوائج ذالک شرک قبیح و جھل صریح قال اللہ تعالی و من اضل ممن یدعوا من دون اللہ“(بحوالہ بدعت کیا ہے) بایزید بسطامی ؒ فرماتے ہیں ”استغاث المخلوق بالمخلوق کالاستغاث المسجون بالمسجون“یعنی مخلوق کا مخلوق سے مانگنا ایساہی ہے جیسا ایک قیدی دوسرے قیدی سے کہتا ہے کہ مجھے اس قید سے چھڑاؤ۔ مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں کہ ”ہرگاہ ہر محدث بدعت است و ہر بدعت ضلالت پس معنی حسن در بدعت چہ بود“
جس طرح صوفیاء توحید کے باب میں کافی شدید تھے اسی طرح وہ سنت کے معاملے میں بھی خالص تھے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ا نہوں نے اپنے نام کا استنباط بھی حدیث ہی سے کیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ علامہ تھانوی ؒ ”التکشف عن مہمات التصوف“ کے رسالہ”حقیقۃ الطریقہ من السنۃالانیقہ“میں ”عادت بعض،لبس صوف“  کے عنوان کے تحت ایک حدیث نقل کرتے ہیں جو اس طرح ہے ”عن ابی ھریرۃ ؓ قال: دخلت علیٰ عائشۃ رضی اللہ عنھا فاخرجت  الینا کساء ملبداً و ازاراً غلیظا،فقالت: قبض رسول اللہ ﷺ فی ھٰذین (بخاری) ترجمہ حضرت ابو ھریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ میں حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا،انہوں نے ہم کو ایک کمبل بہت دبیز،اور ایک لنگی موٹے کپڑے کی نکال کر دکھلائی اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان ہی کپڑوں میں وفات پائی۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فائدہ کے تحت مولانا تھانوی ؒ لکھتے ہیں کہ بعضے درویش اکثر احوال میں کمبل وغیرہ اوڑے رہتے ہیں اور احقر کے نزدیک عجب نہیں کہ ان کا لقب”صوفی“ اسی وجہ سے ہوا ہو۔ اس کے بعد ترمذی شریف کی ایک روایت نقل کرتے ہیں جس کا ترجمہ اسطرح ہے کہ حضرت ابن مسعود ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس روز حضرت موسی ؑ نے اپنے رب سے کلام کیا ہے انکے جسم پر پورا لباس صوف کا تھا،پائجامہ بھی اسی کا اور کرتہ بھی اسی کا اور چادر بھی اسی کی اور ٹوپی بھی اسی کی۔ (ترمذی:اللباس،لبس صوف رقم ۴۳۷۱)اگر صوفیاء کے نام کی وجہ تسمیہ یہی ہو تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ جن نفوس کو سنن عادیہ سے اتنی محبت ہو کہ اسی نام سے موسوم ہوئے وہ کیسے بدعات کو برداشت کرتے۔
سنت کی پابندی ان کے یہاں اتنی تھی کہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ سے متعلق لکھا ہے کہ ایک مرتبہ کھانا کھا رہے تھے کہ اتنے میں شیخ نظام الدین ابو الموئد آئے اور آداب بجا لائے۔حضرت قطب ؒ نے التفات نہ برتا اور سلام کا جواب بھی نہ دیا۔جب آپ کھانے سے فارغ ہوئے تو شیخ نظام الدین الموئد نے اس امر کی شکایت کی۔حضرت خواجہ قطب الدین ؒ نے جواب دیا کہ  ”میں طاعت میں مشغول تھا،تجھے کیونکر جواب دیتا۔کیونکہ درویش کھانا قوت عبادت کے واسطے کھاتے ہیں، لہٰذا جب یہ نیت ہے تووہ عین عبادت میں ہیں اور وقت طاعت جواب نہیں دیا جاتا،پس لازم ہے کہ کھانا کھاتے کوئی سلام نہ کرے،بعد اکل طعام سلام کرے۔  اور یہی سنت ہے۔جن نفوس کے یہاں سنت  پر عمل کا اتنا اہتما م ہو وہ کیسے بدعت کو پسند کرتے یا فروغ دیتے۔ یہی وہ نفوس ہیں جن کی بدولت ہم برصغیر میں آج ایمان والے گھروں میں پیدا ہوئے۔ان کا ہمارے اوپر جب یہ احسان ہے توہمیں ان کا نام بڑی تعظیم سے لینا چاہیے چہ جائیکہ تنقیص یا ہتک امیز لہجہ اختیار کرنا۔ وا اسفا!!
ضرورت اس چیز کی ہے کہ جوان نسل کو اسلاف کا تعارف کرایا جائے اور ان کے علمی اور دعوتی کارناموں سے ان کو متعارف کروایا جائے تاکہ وہ ان کے تئیں اپنی زبانیں دراز کرنے کی مصیبت میں شکار نہ ہوں۔ کیونکہ 
جملہ عالم زیں سبب گمراہ شد 
کم کسے ز ابدال حق آگاہ شد 


Views : 475

Shakeel

جزاكم الله خيرا كثيرا

2024-01-09 07:39:47


Bashir Ahmad Sheikh

ماشااللہ بہت خوب آپ نے بہترین انداز میں بے ادب اور بد اخلاق لوگوں کو سمجھیایا کہ ہمارے اسلاف کس مرتبے کے لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

2024-01-08 12:54:12


Bashir Ahmad Sheikh

ماشااللہ بہت خوب آپ نے بہترین انداز میں بے ادب اور بد اخلاق لوگوں کو سمجھیایا کہ ہمارے اسلاف کس مرتبے کے لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

2024-01-08 12:54:01


Leave a Comment