اعتراف اور انکشاف
مجلس علمی کے اہل بست وکشاد لائق مبارک باد ہیں کہ انہوں نے ایک اہم برقی مجلس علمی کی تشکیل سے علم وادب کی شمع فروزاں کرنے کی خدمت انجام دی، جموں وکشمیر کی تاریخ جاننے والے جانتے ہیں کہ کشمیر کا ماضی بڑا شاندار اور علمی، اصلاحی و دعوتی ہے، حضرت بلبل شاہ، میر سید علی ہمدانی، میر سید محمد ہمدانی، شیخ یعقوب صرفی، خواجہ معین الدین کشمیری، مفتی صدرالدین آزردہ دہلوی، بحرالعلوم مولانا محمد انور شاہ، حضرت مولانا شاہ محمد قاسم بخاری قدس اللہ اسرارہم اور ان کے بعد مولانا محمد انظر شاہ، مولانا صدیق احمد کشمیری جنہیں اہل مظاہر علوم سہارنپور علامہ کشمیری سے یاد کرتے ہیں - اور مولانا مظفر حسین ندوی کشمیری سابق استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ خدمت دین و ملت کے پیہم کردار ہیں، اس وقت بہت سے اہل علم و دانش علم ومعرفت اور تحقیق وتصنیف کے میدان میں پہچان رکھتے ہیں، مجلس علمی کے سرپرست حضرت آسی مدظلہ، حضرت کینگ مدظلہ، محترم ڈاکٹر شکیل شفائی حفظہ اللہ ورعاہ وغیرہم یہ وہ حضرات ہیں جن کے فیوض سے اہل مجلس ہمیشہ شاد رہتے ہیں۔ علمی استفادہ کا سلسلہ جاری ہے۔ اللہ کرے یہ سلسلہ تادیر ودور قائم رہے۔
علماء کمشیر میں بحرالعلوم مولانا محمد انور شاہ رحمہ اللہ آفتاب عالمتاب کی حیثیت کے حامل عالم ربانی، محدث بے نظیر اور مفسر نکتہ سنج، فقیہ بے مثال اور ادیب بے مثیل تھے، مولانا کشمیری نے ابتدائی تعلیم کشمیر میں حاصل کرکے ہزارہ کا رخت سفر باندھا، جہاں بافیض و مخلص اساتذہ عظام کی رہنمائی ونگرانی میں علم حاصل کیا، پھر دیوبند آکر اپنے وقت کے عظیم ونامور علماء ہند کی شاگردی کے صف میں شامل ہوئے اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے نمایاں شاگردوں میں ان کا نام جلی حروف سے لکھا گیا، دہلی، دیوبند اور گجرات میں علم وادب کی مسند بچھا کر تشنگانِ علم کی پیاس بجھاتے رہے تاآنکہ وقت موعود آپہنچا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، دیوبند کی سرزمین نے اپنے آغوش میں ہمیشہ کے لیے لے لیا۔ رحمہ اللہ واسکنہ فسیح جناتہ۔
محرر سطور کو مسرت ہے کہ عزیز گرامی مولوی ابرارالحق وانی ندوی سلمہ اللہ ورقاہ الی ما یتمناہ نے راقم کو مجلس علمی میں حاضر مجلس یا ناظر مجلس کی حیثیت سے شریک کیا، اس وقت سے اہل مجلس کے افادات اور علمی وادبی شہ پاروں سے برابر استفادہ رہا۔ حضرت کینگ مدظلہ اور ڈاکٹر شکیل شفائی حفطہ اللہ کی تحریروں کا کیا کہنا۔ ماشاءاللہ سبحان الله۔ اللہ ان حضرات کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور ان کے فیوض وبرکات ہر جگہ عام ہوں۔
آج عزیزم سلمہ کے ذریعہ ایک سوال مجلس علمی کے اہل علم وادب کی خدمت میں پیش کیا گیا، اس میں یہ لکھا گیا تھا کہ "مجلس کے موقر اہل علم و دانش سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ بحرالعلوم مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ نے استاذ العلماء مولانا مفتی محمد لطف اللہ علی گڑھیؒ سے بھی پڑھا ہےتھا؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو حوالہ مطلوب ہے، ہمارے ذہن میں یہ ہے کہ بحرالعلوم نے استاذ العلماء سے علمی فیض حاصل فرمایا تھا۔" اس میں یہ بھی لکھا گیا کہ "ندوہ کے زمانہ میں ہم نے کہیں پڑھا تھا جو اب تک ذہن میں ہے کہ مولانا علی گڑھیؒ سے مولانا کشمیری نے پڑھا تھا" راقم کو کشمیر کے علماء ومحققین کی تحقیقات کی قدر ہے، حضرت مولانا شوکت حسین کینگ مدظلہ صاحب سیرۃ البخاری کی ذرہ نوازی کہ سوال کا جواب ملا، ہم حضرت مولانا کینگ دام ظلہ کے نہایت ممنون ہیں، ہیچمداں کی خاطر قیمتی وقت فارغ کرکے جواب سے مشرف فرمایا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ امام العصر مولانا انور شاہ رحمہ اللہ نے اکتساب علوم نہیں فرمایا. پھر اگلے پیغام میں جناب یونس طارق سلمہ متعلم کشمیر یونیورسٹی کے نقوش رفتگاں کے حوالے سے لکھا کہ مولانا کشمیریؒ نے مولانا علی گڑھیؒ سے استفادہ کیا تھا۔ مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ تلمیذ بحر العلوم کشمیریؒ کے باکمال شاگرد تھے، خدمت حدیث کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک مقام تھا، ان کی معارف السنن سنن الترمذی کی عمدہ شرح ہے، ان کے خاکے نقوش رفتگاں کے نام کے بجائے تاثرات کے نام سے کراچی سے شائع ہوچکے ہیں، نقوش رفتگاں دور حاضر کے عظیم المرتبت عالم وفقیہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کے وفیاتی مضامین و تحریریں ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ حضرت کینگ زید مجدہم نے رجوع لکھ دیا، اللہ اکبر! اللہ ہمیں بڑوں کی پیروی نصیب فرمائے، ہم چھوٹوں کو اپنے عمل وکردار سے دعوت عمل دیتے ہیں۔
ہمارے ڈاکٹر شکیل شفائی حفظہ اللہ نے جواب پر تعلیق کے ساتھ یہ جواب عنایت فرمایا کہ "ہرچند نقوشِ رفتگاں کا ایک مجمل حوالہ دیا گیا ہے لیکن اس سے حتمی طور پر استفادے کا ثبوت متحقق نہیں ہوتا - میں نے جتنے مآخذ دیکھے ان میں مولانا لطف اللہ علیگڈھی رح کو امام انور رح کے اساتذہ میں شمار نہیں کیا گیا ہے - مجھے ذاتی پر مولانا محمد یوسف بنوری رح کی " نقوشِ رفتگاں" نام کی کسی کتاب کا علم نہیں - البتہ امام انور کے حالات میں ان کی عربی کتاب" تحفۃ العنبر" ابھی تک دیکھنے کا موقع نہیں ملا - ممکن ہے اس میں کچھ وضاحت ہو - واللہ اعلم". ہم اس جواب کے لیے ڈاکٹر صاحب کے لیے کلمات تشکر ادا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہمیشہ علم وادب کے جواہر پاروں سے ہم تشنگان علم کی پیاس بجھائیں گے، جزاکم اللّہ احسن الجزاء۔
راقم نے اپنے پرانے اوراق کھنگالے مگر کہیں کچھ اشارہ ان اوراق میں نہیں ملا، افسوس کررہا تھا کہ اچانک خیال آیا اور عقل نے رہنمائی کی اور ڈاکٹر سید محمد فاروق بخاریؒ کی کتابوں کی تلاش وجستجو ہوئی، کیونکہ وہ اس سلسلہ میں مستند ذرائع سے لکھ سکتے تھے، مگر ہمیں ایک حد تک کامیابی حاصل ہوئی، ان کی کتاب "عربی شعر وادب کی تاریخ" دیکھ کر نہایت مسرت ہوئی کہ اس میں یہ لکھا ہوا ملا کہ *"علی گڑھ اس زمانہ میں موجودہ زمانہ ہی کی طرح سرسید احمد خان مرحوم کی سائنسی دانشگاہ کی موجودگی سے مشہور تھا مگر اسی کے قرب وجوار میں حضرت مولانا لطف اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عربی درسگاہ مدرسہ لطفیہ عربی دینی علوم کے خواہشمندوں کے لیے موجود اور مشہور تھی، اور کشمیر کے جویانِ علم یہاں بھی پہنچتے تھے، چنانچہ مفتی سعد الدین صاحب اور ان کے برادر مفتی امان اللّہ صاحب اس درسگاہ سے استفادہ کرنے والوں میں شامل تھے اور مولانا لطف اللہ صاحب علی گڑھیؒ کے خاص شاگردوں میں شامل ہوتے تھے۔ حضرت مولانا انور شاہ صاحب نے بھی اس مدرسہ سے فیض حاصل کیا تھا۔"* (صفحہ: ۷۸) یہ بات داکٹر بخاریؒ نے مدرسہ لطفیہ جامع مسجد علی گڑھ کی روئیداد کے حوالہ سے لکھی ہے۔ مگر ابھی ضرورت اس بات کی ہے کہ روداد حاصل کی جائے اور پوری تحقیق سے یہ بات طے کی جائے کہ بحرالعلوم مولانا کشمیریؒ نے کن علمی مناہل اور منابع علم وادب سے سیراب ہوکر پوری دنیاے علم وادب کے متلاشیوں کو علم وادب اور معرفت کے بیش بہا دانوں اور موتیوں سے مالا مال فرمایا۔
Views : 142
Abdul Azish
I am happy
2024-08-17 19:29:28